پر ہول ہے یہ راہ گزر دیکھتے چلئے

پر ہول ہے یہ راہ گزر دیکھتے چلئے
کٹتا بھی ہے یہ کیسے سفر دیکھتے چلئے


یہ کشمکش شمس و قمر دیکھتے چلئے
آہوں کا ذرا اپنی اثر دیکھتے چلئے


عالم میں بہت دھوم نزاکت کی مچی ہے
نازک ہے بہت ان کی کمر دیکھتے چلئے


حال دل معشوق اور ہم پوچھنے جائیں
اپنا ہی فقط زخم جگر دیکھتے چلئے


یہ حسن کا ان کے ہی تقاضا ہے شب و روز
جب چلئے ادھر سے تو ادھر دیکھتے چلئے


بیداریٔ شب ہو کہ ہو اک خواب پشیماں
یہ معجزۂ شام و سحر دیکھتے چلئے