کیا پنجاب کے لوگ وفادار اور دل دار نہیں ہوتے؟

برصغیر پا ک و ہند دنیا میں ایک کثیر الجہتی سرزمین  اور رنگ برنگ تہذیبوں اور اقوام کی آماجگاہ رہی ہے۔ہر علاقے کا رنگ ، خوشبو، رسم و رواج اور ثقافت میں اپنائیت، ہمدردی، محبت اور امن کی مہک اور چمک نظر آتی ہے۔ان میں سے ایک پنجاب کی سرزمین بھی تہذیب و ثقافت کی ایک خالص اور بھرپور  تصویر کی عکاس ہے۔لیکن بعض لوگ پنجاب پر الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب نے کوئی ہیرو پیدا نہیں کیا یا یہ کہ پنجاب بیرونی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہتا ہے یا یہ کہ حد سے زیادہ سیاسی ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں تراش لی گئی ہیں۔

چند برس قبل ایک مشہور کالم نگار نے اپنے ایک کالم میں لکھا : ہم پنجابیوں میں کھڑے ہونے کے جینز ہی نہیں، راجہ پورس اور رنجیت سنگھ کے علاوہ پنجاب کا کوئی لیڈر کسی سے نہیں لڑا۔ہم پنجابی طاقتوروں کے ساتھ نہیں لڑتے، ہم پنجابی سچوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، یہ ہمارا کیریکٹر، ہماری تاریخ ہے۔ ہم چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے لوگ ہیں۔" کیا آپ بھی اس سوچ سے اتفاق کرتے ہیں۔۔۔آئیے ذرا اس پہلو سے غور کرتے ہیں کہ آیا پنجاب کے لوگوں میں وفاداری کی گھٹی ہے یا چڑھتے سورج کے پجاری  ہوتے ہیں۔۔۔!

پنجاب کی سر زمین زرخیز بھی ہے اور مردم خیز بھی ہے۔ مذہب ہو یا ادب،سیاست ہو یا قانون،سائنس ہو کہ آرٹ، فلم ہو یا فنون لطیفہ زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں پنجاب کے لوگوں نے اہم کردار ادا نہ کیا ہو۔اگر مذہبی اور روحانی فکر سے دیکھا جائے تو فرید الدین گنج شکر سے لیکر مہر علی شاہ گولڑہ شریف تک سب کا تعلق پنجاب سے ہے ۔ جس میں ملتان جو صوفیوں اور اولیاء کا شہرمشہور ہے۔ تصوف کی پہچان اس شہر سے ہے۔ بہاؤ الدین زکریا،شاہ رکن عالم اور شاہ شمس تبریز جیسے عظیم مذہبی و روحانی پیشواؤں کا تعلق پنجاب کی سرزمین سے ہے۔علاوہ ازیں شاہ حسین جن کا تعلق لاہور سے تھا اور عظیم مغلیہ خاندان سے انکی وابستگی رہی یہ بادشاہ اکبر اور ان کے جانشیں جہانگیر کے دور میں دربار سے بھی منسلک رہے۔میاں میر، سلطان باہو، شاہ عنایت قادری، بلھے شاہ، وارث شاہ اور خواجہ غلام فرید جیسی عظیم ہستیوں کا تعلق پنجاب کی سرزمین سے ہے۔

اس کے علاوہ قومی ہیرو جن نے اپنے خون اور پسینے سے اس وطن کی آبیاری کی۔ ان میں شیخ محمد اقبال جن نے نظریہ پاکستان پیش کیا، چودھری رحمت علی جن نے پاکستان کا نام تخلیق کیا،لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، محمد ظفر علی خان، نصیر احمدملہی،شوکت حیات خان،غضنفر علی خان،ظفر علی خان اور محمد عبدالغفور ہزاروی کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے۔ان سب کا تعلق پاکستان کی تخلیق سے ہے جن نے اپنے لہو سے اس کو سینچا ہے۔ بقول شاعر

تاریخ کے اوراق اسے یاد رکھیں گے

اس بندہ مومن کو کوئی لاکھ بھلا دے

تقریباً آٹھ نشان حیدر پانے والے اس سرزمین پنجاب کے سپوت ہیں۔ جن میں سوار محمد حسین، لانس نائیک محمد محفوظ، نائیک سیف علی جنجوعہ، کیپٹن محمد سرور، میجر شبیر شریف،راجہ عزیز بھٹی، میجر طفیل سب کا تعلق سرزمین پنجاب سے ہے۔جبکہ راشد منہاس کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جس نے کم عمری میں بھی وطن سے وفاداری کا دم بھرا اور اپنی جوطن کی خاطر جان کی پروا بھی نہیں کی۔

سیاسی قائدین کو دیکھا جائے تو جنرل ضیاءالحق، محمد رفیق تارڑ سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان، نواب زادہ نصر اللہ خان، یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ،چودھری خاندان یہ سب اس سرزمین کے سپوت ہیں۔ جب ہم پاکستان کی جدید سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مزاحمت کے حیران کن، جگمگاتے رنگ نظر آئیں گے۔ کون سی سیاسی، عوامی تحریک ہے، جسے پنجاب نے پزیرائی نہیں بخشی۔ 

ادب کی شکل میں حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض جن کو اقبال سے مماثلت حاصل ہے علامہ اقبال کے بعد فیض احمد فیض ایک بہت بڑا نام ہیں۔ان کے استاد بھی مولوی میر حسن تھے میڈم نورجہاں اور مہدی حسن ان کا کلام پڑھتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ،فیض احمد فیض کے مداح تھے۔ آپ نے انقلابی اور رومانوی دونوں قسم کی شاعری کی۔ آپ کا یہ شعر بہت مشہور ہوا ہے۔

گلوں میں رنگ بھرے ،باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

حسن منٹو،حبیب جالب اور

انور مسعود جیسے قابل چہرے سامنے آتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں اعجاز اختر، شعیب اختر، وسیم اکرم، عبدالحفیظ، انضمام الحق، شعیب ملک ،مصباح الحق،سعید انور ، وقار یونس اور محمد عامر جیسے کامیاب کرکٹر سامنے آتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی پنجاب کے سپوتوں کا اہم کردار ہے۔ عبدالسلام جنہیں الیکٹروویک فورسز کی شناخت اور اس کے استعمال پر نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ مشہور فزکس دان ریاض الدین،مسعود احمد، نیورو سرجن. ایوب عمایہ ،ماہر معاشیات محبوب الحق کا تعلق اس دھرتی سے ہے۔

پنجاب کی تاریخ میں  میں  پنجاب کے سپوت ، مزاحمت کااستعارہ دلا بھٹی کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ جنھوں نے دینِ اکبری کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا۔مشہور قانون دان اعتزاز احسن نے دْلا بھٹی کی اس مزاحمت کو کسانوں کی تحریک کا نام دیا۔ اعتزاز احسن لکھتے ہیں: ‘‘وادیِ سندھ اور وادیِ ہند کا کسان انتہائی تنگی و عسرت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے لیئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تھا۔ جب کہ حکمر ان شہزادوں اور جاگیرداروں کا طرزِ زندگی اصراف اور عیاشی کی انتہائوں کو چھو رہا تھا۔ ان شاہ خرچیوں کو برقرار رکھنے کے لیے  محاصل میں من مانے اور مسلسل اضافے کیےجاتے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا کہ کسان کے ڈھور ڈنگر اور زرعی آلات چھین لیے جاتے۔ قسمت کے مارے کسان کو سرکار کے لئے بلامعاوضہ مشقت بھی کرنی پڑتی۔ جب بھی کسی بادشاہ کو قلعہ یا کوئی شہر تعمیر کرنا ہوتا تو قرب وجوار کے علاقوں میں ہر شخص کو تعمیراتی کاموں میں حصہ لینے کا حکم جاری کردیا جاتا جسے ‘‘بیگار’’ کا نام دیا جاتا تھا۔ کسان اس بدترین صورتحال سے عاجز آچکا تھا، وہ بغاوت کی دہلیز پر کھڑا تھا۔ اْسے محض قیادت کا انتظار تھا اور پنجاب میں اسے یہ قیادت میسر آگئی تھی اور اس نے سرکاری قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا تھا۔’’ (سندھ ساگر۔ ص 167)

ملک پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے 69 فی صد لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ پنجاب میں پنجابی کے علاوہ بولی جانے والی زبانوں سرائیکی، براہوی اور رچناوی (سرگودھا اور جھنگ کے لہجوں میں سرگودھوی اور جھنگوچی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے)  کا ادب اور شاعری محبت، رواداری، وفاداری اور خیرخواہی کا پیغام دیتی ہے۔  پنجابی خوش خوراک اور خوش مزاج واقع ہوتے ہیں۔ الغرض تاریخ کا کوئی بھی میدان ہو پنجابیوں کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

26مارچ 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے چٹاگانگ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

" ہم پنجابی،سندھی،بلوچی،پٹھان یا بنگالی نہیں اب صرف پاکستانی ہے۔"

 14، اگست 1947 ء کو جب اللہ پاک نے مسلمانوں کو الگ ریاست کلمہ طیبہ کے نام پر عطا کی تو اس کا مقصد صرف و صرف اسلامی اصولوں اور قاعدوں کی پروان اور ترویج تھا۔ جہاں مسلمان اپنے مذہب، رہن سہن اور عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔یہ ریاست قومیت اور فرقہ واریت کے تصور سے بالاتر ہوکر حاصل کی گئی تھی۔ ملک سات لاکھ چھیانوے ہزار چھیانوے مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ جس کے انتظام و انصرام کو سنبھالنے کے لیے زمینی تقسیم کی گئی ۔ جس میں پنجاب، سندھ،خیبر پختونخواہ ،بلوچستان اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ پاکستان کا ہر صوبہ اپنے آپ میں ملک خداداد کی پہچان ہے۔ ہماری آن و شان ان سب سے منسلک ہے۔

چونکہ پنجاب آبادی کے تناسب سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کے متعلق اکثر یہ سننے کو آتا ہے کہ اس زمین سے آج تک کوئی ہیرو جنم نہیں لے سکا ؟ تو یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ  جس طرح پاکستان کے دوسروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے محب وطن، وفادار اور خوددار ہیں پنجابی بھی اپنے علاقے کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کے ہر ہر کونے کی حفاظت اور اس سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور ہمیشہ بھرتے رہیں گے۔ باقی صوبے بھی ہماری جان ہیں۔ آن ہیں شان ہیں۔ ہماری شناخت ہیں۔ بقول عامر خاکوانی کے کہ  پنجاب کوفہ نہیں، اہل پنجاب کوفی نہیں ،سچ تو یہ ہے کہ یہ اپنے حسین کے انتظار میں ہیں اور ابن زیاد کا ساتھ دینے سے انکاری۔

 

بقول بلھے شاہ

ہر خون وچ وفا نہیں ہوندی بلھیا

نسلاں ویکھ کے یار بنایا کر

اللہ پاک ملک پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ ہم سب میں اتحاد اور وطن کے لیے وفاداری پیدا ہو۔ آمین

متعلقہ عنوانات