پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت
اردو افسانے نے اپنی عمرکے سو برس پورے کر لیے ہیں۔ پریم چند کے جنم (۱۸۸۰ء) پر ایک سو پچیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پریم چند اور افسانے کی روایت کا سفر تقریبا ًساتھ ساتھ جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے سائے میں سانس لیتے ہیں اور ایک کے معنی کا تعین دوسرے کے حوالے سے ہوتاہے۔ پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کی فکری اور تخلیقی روایت کاسلسلہ بڑی حد تک ایک سی سمت اور رفتار سے جڑا ہوا ہے۔
اب روایت کے سلسلے میں سب سے پہلے جو بات میرے ذہن میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہر زندہ روایت کی طرح اردو فکشن کی روایت بھی اپنے ارتقا کے کسی موڑ پر، کبھی ٹھہری نہیں۔ اس سفر کے دوران سکوت یا انجماد کا لمحہ کبھی نہیں آیا۔ روایت کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہ کبھی، کہیں بھی رکتی نہیں۔ رک جائے تو سمجھئے کہ اس کے انجام یا ہلاکت آفریں اضمحلال کی گھڑی بھی آگئی اور اب اس کی توانائی کا ذخیرہ بس ختم ہوا چاہتا ہے۔ اب وہ منزل دور نہیں جب زندگی سے چھلکتی ہوئی یہ روایت تاریخ کے تکیے پر سر رکھ دےگی اور سو جائےگی۔ کسی بھی روایت کا صرف تاریخ میں محصور ہوکر رہ جانا اس کی تکمیل یا تدفین کا اعلان ہے۔
پریم چند کا امتیازیہ ہے کہ انہوں نے تو اپنی آنکھیں تقریبا ًستر برس پہلے بند کر لیں، مگران کی پرچھائیں ابھی جاگ رہی ہے اور متحرک ہے۔ وہ اپنے اصل روپ رنگ کے ساتھ ہمیں چاہے دھندلے نظر آنے لگے ہوں اور ہماری تخلیقی ترجیحات میں، معیاروں میں، مطالبات میں گزرتے ہوئے زمانے کے ساتھ چاہے جیسا انقلاب آچکا ہو، پریم چند کی پرچھائیں سے ہمارا مکالمہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ پریم چند کے ’ہوری‘ نے اردو کے نئے افسانے میں چاہے جتنا بدلا ہوا قالب اختیار کر لیا ہو (بحوالہ سریندر پرکاش)، پریم چند ہمارے لئے ابھی تک نہ تو نامانوس ہوئے، نہ صرف تاریخ کا حصہ بن کر ہمارے عہدسے لا تعلق ہو گئے۔ جس طرح ہماری اجتماعی زندگی کے بہت سے عناصر، اس کی پہچان کے بہت سے نشانات مستقل ہیں، اسی طرح پریم چند کی معنویت بھی مستقل ہے۔
پیٹربروکس نے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران یہ بات کہی تھی کہ ہمارے عہدمیں یہ جو وسطیت زدہ یا میڈیوکریٹی کی مار ی ہوئی ادبی تخلیقات کی باڑھ سی آئی ہوئی ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہم عصر لکھنے والوں کی اکثریت اپنی روایت کے امکانات اور اس کی اندرونی طاقت سے کام لینے کا ہنر کھو بیٹھی ہے۔ نت نئے نظریوں اور فارمولوں میں ہمارے ادیب بہت جلد بہہ نکلتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت جلد بے دست و پا ہو جاتے ہیں۔ نئی روایت قائم کرنا تو بہت بڑی بات ہے، اپنی رہی سہی روایت کو سنبھالنے کا سلیقہ بھی نیا فکشن لکھنے والوں کی اکثریت کے حصے میں نہیں آیا۔
پریم چند کی تخلیقی اور فکری روایات کے سیاق میں ایک ساتھ دو باتیں عام طور پر کہی گئی ہیں۔ بعد کے لکھنے والوں کا ایک حلقہ تو یہ سمجھتا ہے کہ پریم چندکی جدوجہد آج ایک نیامفہوم پانے لگی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا بے شک آج پہلی جیسی نہیں رہی لیکن ہمارے گردوپیش کی زندگی آج بھی ان مسئلوں کے بوجھ سے رہا نہیں ہو سکی ہے جن کا ادراک پریم چند نے کیا تھا۔ ہماری حسیت کا حوالہ بننے والے ماحول میں ایک ساتھ دو دنیائیں سانس لیتی ہیں۔ ان میں ایک نئی ہے، دوسری پرانی اور نئے پرانے کی یہ کشمکش ہماری زندگیوں پرآج بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ اس لحاظ سے پریم چندکی فکری اور تخلیقی وراثت کو تاریخ کے ایک نئے شعور کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ابھی ختم نہیں ہوئی۔
دوسری طرف لکھنے والوں کاوہ گروہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وقت کے ساتھ پرانے تجربوں اور پرانے کرداروں کی دنیانئے لکھنے والوں کے لئے لائق تقلید نہیں رہ جاتی۔ یہاں میرا اشارہ اس گروہ کی طرف ہے جو ماضی کو اپنے عہد کی حقیقت کے حوالے سے ازسرنو سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ گروہ ماضی کے بوجھ سے یاہمارے حال میں ماضی کی حیثیت کے وجود سے انکار نہیں کرتا۔ یہ بات بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے وسط میں فکشن پر برپا ہونے والے ایک سمینار کے دوران (کلکتے میں) راجندر یادو نے کہی تھی۔ اس لحاظ سے یہ بیان لگ بھگ چالیس برس پرانا ہے۔ مگر پچھلے چالیس پچاس برسوں میں ہماری اجتماعی زندگی نت نئے سوالوں سے دوچار ہونے کے بعد بھی بہت سے پرانے مسئلوں میں الجھی ہوئی ہے۔
عورتوں کے استحصال کا مسئلہ، چھوا چھوت کا مسئلہ، طبقاتی کشمکش اور تصادم کا مسئلہ، گاؤں بنام شہر کے فرق اور فاصلے کا مسئلہ، فرقہ واریت کا مسئلہ۔ یہ تمام مسئلے برصغیر کی اجتماعی زندگی یا اردو دنیا کی جیتی جاگتی صورت حال میں پیوست ہیں اور پریم چند کے بعد کی نسل کے لکھنے والوں نے اپنے طور پر ان مسائل کی تخلیقی تعبیر سے برابر سروکار رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ پریم چند نے حقیقت کو اسی حد تک سمجھنے اور سمجھانے کی جستجو اپنے فکشن کے واسطے سے کی تھی جہاں تک وہ اسے برداشت کر سکتے تھے۔ ایلیٹ نے کہا تھا کہ حقیقت کو ہم ’’اتنا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جتنی کہ وہ ہماری برداشت کی حد کے اندر ہو۔‘‘
پریم چند کی حقیقت پسندی میں، ان کے آدرش وادیا گاندھی واد سے ان کے شغف کا جائزہ، اسی حوالے سے لیا جانا چاہئے۔ اس لحاظ سے پریم چند ہمیں اپنی دہشت زدگی اور بےچینی کے باوجود بہت نرم خواور سنبھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اپنے اظہار و ادراک دونوں کی سطح پر۔ لیکن انہیں پڑھنا آج بھی حقیقت کی ایک سطح پر اپنے باطن میں سفر کرنا ہے۔ اپنی اجتماعی زندگی سے ہمارا رابطہ اور مکالمہ پریم چند کے واسطے سے، اسی لئے آج بھی قائم اور مستحکم ہے۔ ایک نئے افسانہ نگار جنہوں نے کہانی لکھنے کی کوشش میں ایک عمر گزار دی اور جو زندہ کہانی لکھنے کے تجربے سے تاحال نہیں گزرے، ان کے اس بیان کو سن کر میں کانپ اٹھا تھاکہ ’’نئے لکھنے والوں کو منٹو کے ’سیاہ حاشیے‘ والے چنگلوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
گویا کہ ان عزیز کوزندہ تخلیقی اظہار سے تو خیر دور کی نسبت بھی نہ تھی، حقیقی زندگی کے آشوب اور جیتی جاگتی حقیقتوں سے بھی ان کا واسطہ نہیں اور وہ اس ’’ماضی‘‘ تک کو مسترد کرنے کے زعم میں مبتلا ہیں جو ہمارے ’’حال‘‘ کی پہچان بنا ہوا ہے اور جس کے بغیر ہم اپنی انسانیت تک کا تصور نہیں کر سکتے۔ پریم چند بھی منٹو کی طرح ہماری اجتماعی یادداشت کا ایک اٹوٹ حصہ، ہمارا ’’ماضی‘‘ ہی نہیں ہیں، ہمارا ’’حال‘‘ بھی ہیں اور ایسا اس حقیقت کے باوجود کہ پریم چند کے ادراک کی کچھ اپنی معذوریاں بھی تھیں اور ان کی بصیرت اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود ہمارے لئے رول ماڈل کی حیثیت نہیں رکھتی۔
امرت رائے کی کتاب ’’قلم کا سپاہی‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نامور سنگھ نے کہا تھا کہ، ’’پریم چند کا گاؤوں سے اور کسانوں سے کوئی زندہ تعلق نہیں تھا۔‘‘ یعنی یہ کہ پریم چند نے اپنے تخلیقی شعور اور اپنی فکری ترجیحات کا تعین کرنے والے انسانی تجربوں کوسمجھنے اور دیکھنے کے عمل میں، ان تجربوں سے ایک فنکارانہ فاصلہ بھی قائم رکھا۔ لیکن کسانوں، مزدوروں، سماج کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں، محروم و مجبور اور مسلسل زیادتی اور ظلم کا شکار ہونے ولے لوگوں کی دنیا پریم چندکے لئے، بہرحال اجنبی اور نامانوس نہیں تھی۔
’منٹو‘ کی طرح پریم چند نے بھی حقیر ترین انسانوں کے مقابلے میں بھی اپنے تخلیقی شعور کو اور اپنی بصیرت کوہمیشہ کم تر جانا۔ ہمدردی، ترحم آمیزی اور اپنے فکشن کا موضوع بننے والی انسانی صورت حال میں تبدیلی کی خواہش کے باوجود ہر طرح کے انقلابی دعوے یا اعلانیے سے پریم چند محفوظ جو رہے تو اسی لئے کہ وہ اپنے کرداروں کا احترام کرتے تھے۔ اپنی انسانیت کو بچائے رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے تجربوں کو وقیع سمجھتے تھے۔ ان پر ترس کھانے یا اپنے احساسات پر اترانے کی علت سے آزاد تھے۔
پریم چند نے ایک شائستہ اور رچی ہوئی فنکارانہ دیانت داری کے ساتھ وہ کچھ لکھنا چاہا، جوفطرت ان کے باطن کی تختی پر پہلے ہی نقش کر چکی تھی۔ اسی لئے پریم چند اپنی تحریر میں ہمیں ناگزیر طور پر دیانت دار اور سچے دکھائی دیتے ہیں۔ پریم چند کی طاقت سب سے زیادہ ان کے سروکاروں میں ہے۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہماری اجتماعی زندگی کا بنیادی منظرنامہ اور ماحول نہیں بدلتا، ہمارے شعور کے محور اور پریم چند کے سروکاروں کی معنویت میں بھی فرق نہیں آئےگا۔
انہوں نے اپنی چھپن برسوں کی آلام اور آزمائشوں سے بھری زندگی میں ایک ذمہ دار ادیب کی حیثیت سے اس محور کو تبدیل کرنے کی تخلیقی جدوجہد جاری رکھی۔ زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی، کبھی مایوس نہیں ہوئے، کبھی اپنے خوابوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اسی لئے پریم چند کی جدوجہد آج ایک نیا مفہوم پانے لگی ہے۔ ہماری تخلیقی حسیت پریم چند کی ادبی وراثت سے دست کش ہو بھی جائے، تب بھی ان کی جدوجہد اور ان کے سروکاروں کی اہمیت برقرار رہےگی۔ ان سے منہ پھیر کر ہمارے ادیب نہ تو اپنی انسانیت کو بچا پائیں گے نہ اپنی تخلیقیت کو۔
اپنے سہج سبھاؤ، اپنی سادگی اور اپنے غم آلود ادراک کے باوجود پریم چند ہمارے شعور کی سطح میں ہلچل پیدا کرنے، ہمیں اکسانے اور اشتعال دلانے، ہماری بصیرتوں کو تیز کرنے، ہمارے درد اور اجتماعی ملال کو با معنی بنانے کی ایک انوکھی طاقت رکھتے تھے۔ ان کی حسیت ہمیشہ زمین سے لگ کر چلتی تھی۔ ان کا تخیل اپنی ارضی اور مادی بنیادوں سے کبھی بے تعلق نہیں ہوا۔ یہ ایک گہرا، گھنا، حقیقت پسندانہ Engagement ہے۔ اس دیس کی دھرتی اور دھرتی پربسنے والوں سے پریم چند کی وابستگی یا ان کے جذباتی، ذہنی، حسی کمٹ مٹ (Commitment) میں جو مقامی رنگ ملتے ہیں وہ جس دیسی توانائی (Native Vigour) کے ساتھ اپنی زندگی کے دکھ اور زمانے کے دکھ کا سامنا کرتے ہیں، ا س کی کوئی مثال ہمیں پریم چند سے پہلے کے اردو فکشن میں نہیں ملتی، اتنے کھرے پن، سچائی اور سادگی کے ساتھ ان کے بعد کے فکشن میں بھی نہیں ملتی۔
وہ غیر دلچسپ ہو جانے یا معنی کے اکہرے پن کا بوجھ اٹھانے سے کبھی گھبراتے نہیں۔ میں اس حقیقت کے اسباب پر غور کرتا ہوں تو اس نتیجے تک پہنچتا ہوں کہ لکھنا پریم چند کے لئے سانس لینے جیسا تھا۔ ان کے تخلیقی تجربے کی شروعات زمین سے ہوتی ہے۔ اس کا خاتمہ بھی زمین ہی کی سطح پر ہوتا ہے۔ سماجی انصاف (Social Justice) کا مسئلہ پریم چند کے فکری سروکار کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ بہ حیثیت ادیب پریم چند نے ہمیشہ اپنے تجربوں کے بیان سے سروکار رکھا، کبھی ہماری اجتماعی زندگی کے لینڈ اسکیپ میں، چاہے جتنے الجھاوے ہوں اورہماری اقتصادی، تہذیبی، سماجی، سیاسی اور قومی زندگی میں چاہے جتنے پیچ ہوں، پریم چند کی کہانی کبھی پیچیدہ نہیں ہوتی۔ کبھی ترسیل کا مسئلہ پیدا نہیں کرتی۔ قاری کے فہم و ادراک کاکبھی امتحان نہیں لیتی، سپاٹ اور سہل البیان ہونے سے کبھی نہیں ڈرتی۔
پریم چند انسان اور انسان کے رشتے، فرد اور سماج کے رشتے، انسان اور فطرت کے رشتے کو سمجھنے کی کوشش میں بہت دور تک جاتے ہیں، سماجی اسٹرکچر کے بہت سے بھیدوں کی چھان بین کرتے ہیں۔ اپنے کرداروں کے انفرادی ردعمل کی حقیقت سمجھنا چاہتے ہیں، بالعموم واقعات اور تجربوں کی اکہری سطح پر، لیکن زندگی کی مانوس سچائیوں کا، ایک گہری، رچی ہوئی انسان دوستی کا سرا، پریم چند کے ہاتھ سے کبھی چھوٹتا نہیں۔ وہ سامنے کی چیزوں اور جذبوں اور احساسات کے حوالے سے اپنی بات کہتے ہیں۔ ان کا ڈھیلا ڈھالا، کہیں کہیں اکتا دینے والا اور بےرنگی کی حد تک سادہ اور پھیکا اسلوب ہمیں ایک ایسے ذمہ دار، دانش مند اور حساس، کھرے اورسچے قصہ گو تک لے جاتا ہے جس نے اپنے عہد کی زندگی کو کہانی کا قائم مقام بنانے کی جستجو کی۔
پریم چند ایک سادھک کی طرح اپنی دنیا اور اپنی ہستی کا بوجھ اٹھائے اپنی تخلیقی مشقت میں مگن رہے۔ اسی لئے اپنے جانے پہچانے منظر نامے کے ساتھ بھی پریم چند کی بصیرت صرف اپنی تاریخ اور اپنی زمینی یا زمانی صداقتوں کی پابند نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح ہم بالزاک اور فلابیئر کو صرف فرانسیسی سمجھ کر، ٹالسٹا ئے کوصرف روسی سمجھ کر نہیں پڑھتے، اسی طرح پریم چند بھی اپنی اتھاہ ہندوستانیت کے باوجود صرف ہندوستانی نہیں رہ جاتے۔
یہاں ہمیں ایک اورحقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ واقعات یا سماجی صورت حال کی عمر سے، کسی لکھنے والے کی بصیرت اورمعنویت Relevance کو نہیں پایا جا سکتا۔ ادب کو تاریخ یا سماجیات کی سطح پر رکھ کرسمجھنا ادب، تاریخ اور سماجیات سب کے ساتھ نانصافی کرنا ہے۔ کہانی چاہے جتنے روایتی سانچے کے ساتھ آئے، ضروری نہیں کہ خود بھی روایتی ہو۔ ہمارے دیس کی علاقائی زبانوں میں کچھ لوگوں نے پریم چند کے بیانیہ اسلوب سے بھی زیادہ پرانے اسلوب میں ’’نئی کہانی‘‘ لکھی ہے۔ نئے اور پرانے کا، یانئی معنویت اور روایتی معنویت کافیصلہ، دراصل لکھنے والے کی مجموعی حسیت کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ فنی حکمت عملی کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔ اس رمز کو سمجھنے کی ایک بہت سامنے کی مثال پریم چند کی کہانی’نجات‘ اور اسی کہانی کی بنیاد پر بنائی جانے والی ستیہ جیت رے کی فلم سدگتی ہے۔
فنی برتاؤ کے مضمرات میں بس ذرا ذرا سے فرق نے کہانی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اس برتاؤ (Treatment) یافنی ادراک، یاحسیت کی بنیاد صرف واقعات یا صرف سماجی حقیقتیں نہیں ہوتیں۔ صرف زبان یا اظہار کے سادھن بھی نہیں ہوتے۔ کہانی کی ساخت یا اس کا اسٹرکچر بھی نہیں ہوتا۔ اس حسیت کی اساس ایک طرح کی ہمہ گیریت، ایک کلیت (Totality) پر استوار اور قائم ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے لکھنے والے کی بصیرت اور اس کی معاشرتی حقیقت میں تال میل ہو، مناسبت اور توازن ہو اور دونوں کا احاطہ ایک ساتھ کیا جا سکے۔ پریم چند نے کہا تھا، ’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو۔ تعمیر کی روح ہو۔ زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔ جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بےچینی پیدا کرے۔۔۔ سلائے نہیں، کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی۔‘‘ (۱۹۳۶)
بدقسمتی سے ہماری اجتماعی زندگی میں ایک حلقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جواجتماعی بیداری سے، ایک مثبت اور صحت مند سماجی بےچینی سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے وہ پریم چند سے بھی ڈرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو مرلی منوہر جوشی صاحب یا ان کے حاشیہ نشینوں سے پوچھ لیجئے۔ سابقہ حکومت (NDA) کے دوران پریم چند کی جگہ اسکول کے نصاب میں بی جے پی کی ایک معمولی کارکن کی کتاب کو مروج کرنے کی کوشش کا مقصد کیا تھا؟
پریم چند کے احساسات اور ان کی سدھی ہوئی سہل اور سادہ زبان کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ وہ تاریخ جس کی ترجمانی میرامن اور غالب اور اشرف صبوحی اور خواجہ حسن نظامی کرتے ہیں۔ دنیا کی دوبڑی تہذیبوں کا ورثہ ہے۔۔۔ انڈو مسلم ثقافت کا ورثہ۔
اس ورثے کا سب سے قیمتی نشان اردو زبان ہے اور اس زبا ن کا بھی وہ روپ جسے پریم چند نے اپنایا اور ترقی دی۔ محمد حسن عسکری نے کہا تھا کہ ہمار ی اجتماعی تاریخ اور مشترکہ روایت کے سیاق میں اردو زبان تاج محل سے بھی زیادہ بڑ ا اور قیمتی تہذیبی تجربہ ہے۔ بہ قول ہربرٹ اسپنسر اس سے پہلے کہ ہم معاشرے کی تشکیل کا بیڑا اٹھائیں، ضروری ہے کہ معاشرہ ہماری تشکیل کر چکا ہو۔ پریم چند اس مرحلے سے گزر چکے تھے۔ اسی لئے ان کی زبان، ان کا اسلوب، ان کا تخلیقی رویہ، ان کے تجربے اور سروکار۔۔ سب کے سب اپنی دنیا کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک نئی دنیا کی تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ پریم چند اس سچائی کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ جدید کاری اور گلوبلائزیشن کے اس تیز رفتار، پرتشدد، دہشت ناک دور میں اپنی اصلیت کو بچائے رکھنا ضروری ہے۔ سو اسی اصلیت (Originality) کی حفاظت پر انہوں نے اپنے آپ کو مامور کر لیا تھا۔
وہ ہمارے لئے ایک Icon بن چکے ہیں۔ اب اس Icon کی مدد سے ہم اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہےگا۔ یہ پریم چند کی تخلیقی طاقت اور ان کی عنصری سادگی کے ساتھ ساتھ ان کے گہرے انسانی جذبوں کے جادو، دونو ں کا اثر ہے۔ پریم چند کی فکری اور تخلیقی روایت ان دونو ں کی دین ہے۔ پریم چند صرف ایک شخص نہ تھے، خیال کا ایک موسم تھے۔ یہ موسم ابھی گزرا نہیں ہے اور ابھی اس کا سایہ ہمارے سروں پر قائم ہے۔ ایک پرانی رت کی سرگوشی ہم آج بھی سن رہے ہیں۔ شاید اس وقت تک سنتے رہیں گے جب تک کہ ہماری اجتماعی زندگی کا نقشہ تبدیل نہیں ہو جاتا۔ بہ قول احمد مشتاق،
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھوں
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں