پریم چندؔ ایک تھا ایک سے اک جہاں بن گیا
مفلسی تھی تو اس میں بھی اک شان تھی
کچھ نہ تھا کچھ نہ ہونے پہ بھی آن تھی
چوٹ کھاتی گئی چوٹ کرتی گئی
زندگی کس قدر مردہ میدان تھی
جو بظاہر شکستہ سا اک ساز تھا
وہ کروڑوں دکھے دل کی آواز تھا
راہ میں گرتے پڑتے سنبھلتے ہوئے
سامراجی کے تیور بدلتے ہوئے
آ گئے زندگی کے نئے موڑ پر
موت کے راستے سے ٹہلتے ہوئے
بن کے بادل اٹھے دیش پر چھا گئے
پریم رس سوکھے کھیتوں پہ برسا گئے
اب وہ جنتا کی سمپت ہے دھنپت نہیں
صرف دو چار کے گھر کی دولت نہیں
لاکھوں دل ایک ہوں جس میں وہ پریم ہے
دو دلوں کی محبت محبت نہیں
اپنے سندیش سے سب کو چونکا دیا
پریمؔ نے پریم کا ارتھ سمجھا دیا
فرد تھا فرد سے کارواں بن گیا
ایک تھا ایک سے اک جہاں بن گیا
اے بنارس ترا ایک مشت غبار
اٹھ کے معمار ہندوستاں بن گیا
مرنے والے کے جینے کا انداز دیکھ
دیکھ کاشی کی مٹی کا اعجاز دیکھ