پریم چند
الف لیلہ اور داستان امیر حمزہ کے دور اقبال کا آفتاب جب غروب ہونے کو آیا اور بوستان خیال اور طلسم ہوشربا کے دفتر جب زمانے کے ہاتھوں داخل دفتر ہونے لگے تو ’’صاحب‘‘ کے قدموں کی برکت سے ایک نئی دنیا دلوں اور دماغوں کی خیالات اور جذبات کی سزمین ہند میں آباد ہونے لگی۔ اور اس دیس کے لوگ ایک نئی چیز، اور نئے نام ’’ناول‘‘ سے آشنا ہونے لگے۔ ’’طلسمات‘‘ کی جگہ اب سین اور سینری، ’’کوہ قاف‘‘ کی جگہ شہر کی گلیاں اور بالا خانے، ’’شہباز فکر‘‘ کی جگہ پلاٹ، دیووں اور شہزادوں کی جگہ ’’ہیرو‘‘ اور پریوں اور شہزادیوں کی جگہ ہیروئن!شاگرد نے استاد کے منہ سے نکلے ہوئے انچھرگرہ میں باندھ لیے اور خود بھی وہی بولنا اور وہی سوچنا، وہی لکھنا اور وہی پڑھنا شروع کر دیا جس کے سبق اسکول اور کالج میں پڑھے تھے۔ اردو میں ناول چھپنے لگے اور بکنے لگے، لکھے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے، اور ناول بھی ہر رنگ کے ہر ڈھنگ کے۔ کوئی تاریخی اور کوئی محض خیالی، کوئی معاشرتی اور کوئی اصلاحی، پیسہ اخبار اسٹریٹ، 1کی طرف جا نکلیے تو ’’جاسوسی‘‘ بھی اور ادب لطیف کے ضلع میں آ جائیے تو قاموسی‘‘ بھی۔ شرؔر و سرشارؔ اپنے اپنے فن میں استاد، ناول نویسوں کے لشکر کے علمبردار اور پیچھے چلنے والوں کی تعداد بے شمار۔بات میں بات نکلتی ہے اور شاخ سے شاخ۔ بڑے ناول تو کتابی صورت کے لیے مخصوص رہے۔ ان کے ولی عہد، مختصر افسانے پیدا ہوئے اور وہ رسالوں اور ماہناموں میں نکلنے لگے۔ بازار میں ان کی مانگ بھی خوب رہی، اور ناول اور مختصر افسانے علم وادب کی شاخ تو کسی ایک ہی آدھ کے لیے رہے البتہ ایک پر منفعت تجارت اور کامیاب کاروبار بہتوں کے لیے بن گیا۔ لیکن ان سب میں ہوتا کیا تھا؟ ناول ہو یا ’’شارٹ اسٹوری‘‘ عام ذہنوں کے سامنے ان کا مفہوم تھا کیا؟ وہی حسن وعشق کی پرانی داستان، وہی لیلیٰ ومجنوں، شیریں وفرہاد کی ہزار ہامرتبہ کی دہرائی ہوئی کہانی جو لاکھ پرانی ہونے پر بھی اب تک پرانی نہیں ہوئی ہے۔، یہ مضمون ہے کہ ہوگا نہ پرانا ہرگز۔بس یہی فلاں کی آنکھ فلاں سے لڑ گئی۔ فلاں کے ساتھ نکل گئی۔ اس کی عصمت یوں لٹی، اس کی آبرویوں بچی۔ کسی کے لب پر آہ سوزاں کسی کے جگر میں زخم پیکاں۔ یہ اس پر مفتوں، وہ اس کے لیے مجنوں۔ ایک اپنی آرزوؤں اور تمناوؤں میں کامیاب ہو گیا، دوسرا ناشاد و نامراد دنیا سے کوچ کر گیا۔ گویا ہر داستانِ حیات، داستان نل و دمن۔ اور ہر افسانۂ زندگی افسانہ شیریں و کوہکن۔ ناول کی دلکشی کا راز عشق وعاشقی کی گھاتوں میں، اور ناول نویس کے قلم کا اعجاز جوانی کی راتوں میں۔ کہتے ہیں افسانہ نام ہے ایک ممکن زندگی کی حکایتی مصوری کا لیکن یہاں زندگی مترادف تھی صرف ہجرو وصال کے، صرف رخ و خال کے۔ گویا انسانی زندگی اپنی ساری رنگارنگی اور بوقلمونی کے باوجود کیا تھی؟ تھیٹر کے اسٹیج کی ایک آہ اور دنیائے عمل اپنی ساری وسعت و پہنائی کے باوجود کیا تھی؟ محفل مشاعرہ کی ایک واہ۔یہ رنگ تھے اور کچھ ایسے ڈھنگ کہ ایک گوشہ سے چپکے سے پریم چند نمودار ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا کی کایا پلٹ کر گئے۔ آئے دبے پاؤں خاموشی سے، آتے وقت نہ شور ہوا نہ ہنگامہ لیکن جب گئے تو یارانِ بزم کا انداز ہی کچھ سے کچھ تھا۔ جب تک رہے نہ کسی سے جھگڑے نہ کسی سے الجھے، شکل آپ دیکھتے تو سادہ۔ بات چیت کرتے تو سادہ ترپاتے۔ بس یہ معلوم ہوتا کہ شہر کے نہیں کسی قصبہ کے معمولی سے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ اور زیادہ کرید اگر آپ نہ کرتے تو یہ بھی نہ پتہ چلتا کہ ہیں کس مذہب کے۔ رہے اب تک تویوں رہے اور گئے تو ایک جدید اسلوب کی بنیاد رکھ کر، صاحبِ طرز ہو کر، یا ’’صاحب‘‘ کے محاورہ میں اپنا ایک مستقل ’’اسکول‘‘ چھوڑ کر۔ یہ نہیں کہ پریم چند سے پہلے کسی کو عام ڈھرے سے ہٹنے کا خیال ہی نہ آیا ہو۔ مستثنیات کس کلیہ میں نہیں ہوتے۔ اردو میں بھی بعض باکمال یقیناً ایسے گزر چکے تھے جن کا قلم ان بے اعتدالیوں اور عریانیوں سے بالکل بچ بچ کر چلا، اور جو زندگی کو زندگی سمجھے، شاعری کا مترادف نہیں سمجھے لیکن ان کی کوششیں اور کاوشیں بس انہیں کی ذات تک محدود رہیں۔ دریا میں پتھر آکر گرا، چکر بنا، تلاطم ہوا، لیکن آناً فاناً سب غائب اور ذری دیر میں سطح برابر۔ دھارے کا رخ پھیرنا، وہ جتنا بھی سہی، پریم چند ہی کے نصیب میں آیا۔پریم چند خود تو اپنی کتابوں میں بازار حسن کو نمبر اول پر رکھتے تھے۔ لیکن اس کم سواد بے استعداد کا خیال ہے کہ سب سے بڑھ چڑھ کر ان کی ضخیم کتاب دوجلدوں اور ایک ہزار صفحہ والی چوگان ہستی ہے۔ کہیں سے بھی کھول لیجئے یکساں دلچسپ۔ شروع کردینا شرط ہے، ختم کیے بغیرجی ماننے کا نہیں۔ آورد اور تصنع کہنا چاہیے کہ ان کا قلم جانتا ہی نہ تھا۔ جو بھی صفحہ الٹ کر دیکھئے سادگی، بے ساختگی، آمد کے لحاظ سے خطۂ گلزار۔ جس حصہ کا بھی انتخاب کیجئے دل کشی، دلآویزی اور جاذبیت کے اعتبار سے نمونۂ بہار۔ جان سیوک نامی بنارس کے ایک دیسی ’’صاحب‘‘ عیسائی مذہب کے شخص ہیں پکے دنیا دار۔ نوجوان لڑکی ’’سوفیا‘‘ کا رجحان ہندو مذہب کی جانب ہو جاتا ہے، ایک موقع پر ماں بیٹی سے دوبدو گفتگو ہو پڑتی ہے، اور درمیان لڑکی کے بوڑھے دادا اور جہاں تک محض ظاہری احکام کا تعلق ہے، بڑے دیندار مسیحی ایشور سیوک آ جاتے ہیں۔ سب کی سیرتیں ملاحظہ ہوں،’’سوفیا، میں مذہبی معاملات میں اپنے ضمیر کے سوا اور کسی کے احکامات کو نہیں مانتی۔‘‘مسز سیوک میں تجھ کو اپنی اولاد نہیں سمجھتی اور تیری صورت نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہ کہہ کر وہ سوفیا کے کمرے میں گھس گئی اور اس کی میز پر سے بودھ مذہب اور ویدانت فلاسفی کی کئی کتابیں اٹھاکر باہر برآمدہ میں پھینک دیں۔ اسی جوش میں انہیں پیروں سے کچلا اور پھر جاکر مسٹر ایشور سیوک سے بولیں، پاپا آپ سوفی کونا حق بلا رہے ہیں وہ حضرت مسیح کی ہجو کر رہی ہے۔مسٹر ایشور سیوک ایسا چونکے گویا بدن پر آگ کی چنگاری گرپڑی ہو اور اپنی بے نور آنکھوں کو پھاڑ کر بولے، کیا کہا سوفی!حضرت مسیح کی ہجو کر رہی ہے؟ سوفی؟مسز سیوک ہاں ہاں سوفی کہتی ہے مجھے ان کے معجزوں، ان کے مواعظ اور احکامات پر اعتقاد نہیں ہے۔ایشور سیوک (ٹھنڈی سانس کھینچ کر) یسوع! مجھے اپنی دامن میں چھپا، اپنی گمراہ بھیڑوں کو راہ راست پر لا! کہاں ہے سوفی! مجھے اس کے پاس لے چلو۔ میرے ہاتھ پکڑ کر اٹھاؤ، خدا میری بیٹی کے دل کو ایمان کے نور سے منور کر۔ میں اس کے پیرو ں پر گروں گا، اس ے منتیں کروں گا، اس کو عاجزی سے سمجھاؤں گا، مجھے اس کے پاس لے چلو۔مسز سیوک میں سب کچھ کرکے ہار گئی، اس پر خدا کا قہر ہے۔ میں اس کی صورت نہیں دیکھنا چاہتی۔ایشور سیوک بیٹی ایسی باتیں نہ کرو، وہ میرے گوشت کا گوشت میرے خون کا خون میری جان کی جان ہے۔ میں اسے کلیجہ سے لگاؤں گا۔ یسوع نے کافروں کو سینہ سے لگایا تھا، سیہ کاروں کو اپنے دامن میں پناہ دی تھی، وہ میری ’’سوفیا‘‘ پر ضرور رحم کرےگا۔ یسوع مجھے اپنے دامن میں چھپا۔جب مسزسیوک نے اب بھی سہارا نہ دیا تو ایشور سیوک لکڑی کے سہارے اٹھے اور لاٹھی ٹیکتے ہوئے ’’سوفیا‘‘ کے کمرے کے دروازے پر آکر بولے، بیٹی سوفی کہاں ہے؟ ادھر آبیٹی! تجھے گلے سے لگاؤں، ہمارا یسوع خدا کا دلارا بیٹا تھا، غریبوں کا مدد گار، کمزوروں کا محافظ، مفلسوں کا دوست، ڈوبتوں کا سہارا، گناہگاروں کا شافع، دکھیوں کا بیڑا پار کرنے والا۔ بیٹی! ایسا اور کون سا نبی ہے جس کا دامن اتنا وسیع ہو، جس کی گود میں دنیا کے سارے گناہوں، ساری برائیوں کے لیے جگہ ہو۔ وہی ایک ایسا نبی ہے جس نے بدکاروں کو، کافروں کو، گناہ گاروں کو نجات کا مژدہ دیا۔ نہیں تو ہم جیسے ناپاک لوگوں کے لیے نجات کہاں تھی؟ ہم کو بچانے والا کون تھا؟ یہ کہتے کہتے انہوں نے ’’سوفیا‘‘ کو گلے سے لگا لیا۔یہ ساری گفتگو اول سے آخر تک کتنی سچی اور کیسی مطابق واقعہ ہے۔ صرف آخری ٹکڑے میں ذراسی سے لغزش ہو گئی ہے۔ جہاں حضرت مسیح کو ایک مسیحی کی زبان سے خدا کا نبی کہا ہے۔ یہ عقیدہ اسلامی ہے، مسیحی نہیں، مسیحیوں کے نزدیک تو خدا کے اکلوتے بیٹے کو نبی کہنا اس کی توہین کرنا ہے، لیکن ایسی خفیف لغزشیں افسانہ میں اور وہ بھی محض ضمناً قابل اعتنا نہیں۔انہیں ’’مس سوفیا‘‘ پر ضلع کے انگریز نوجوان کلکٹر مسٹر کلارک کا دل آجاتا ہے اور کورٹ شپ شروع ہو جاتی ہے۔ صاحب بہادر معہ سوفیا کے ایک بڑی ریاست جسونت نگر میں مہمان ہیں۔ یہیں جیل میں مشہور محب وطن اور رئیس زادہ ونے سنگھ، ’’سوفیا‘‘ کا دل سے چاہنے والا قید ہے۔ سوفیا بھی حقیقتاً دل سے اس کی طرف مائل ہے۔ کلکٹر کے ساتھ محض مصلحتاً نباہ کر رہی ہے، دیوان ریاست سردار نیل کنٹھ مہمانداری کی خدمات کے لیے وقف ہیں۔ سوفیا جیل میں ونے کو دیکھ اپنا اشتیاق پورا کرنا چاہتی ہے اور اس لیے جسونت نگر میں ابھی اور ٹھہرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد اصل گفتگو اب خود سنیے،’’شہر کا گشت کر کے سوفیا مسٹر کلارک، سردار نیل کنٹھ اور دو ایک اعلیٰ ملازمین سرکاری تو شاہی محل میں آکر رونق افروز ہوئے۔ بقیہ لوگ رخصت ہو گئے۔ میزپر چائے لائی گئی، مسٹر کلارک نے بوتل سے پیالہ میں شراب ڈالی تو سردار صاحب جنہیں شراب کی بو سے نفرت تھی کھسک کر سوفیا کے پاس جا بیٹھے اور بولے، جسونت نگر آپ کو کیسا پسند آیا؟
سوفیا نہایت پر فضا مقام ہے۔ پہاڑیوں کا منظرنہایت و دلفریب ہے۔ شاید کشمیر کے سوایسا قدرتی نظارہ اور کہیں نہ ہوگا۔ شہر کی صفائی سے جی خوش ہوگیا۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ کچھ دنوں میں یہیں رہوں۔نیل کنٹھ ڈر گئے۔ ایک دوروز تک تو پولیس اور فوج کی طاقت سے شہر کو پرامن رکھا جا سکتا ہے مگر مہینے دومہینے تک کسی طرح بھی بالکل ناممکن ہے۔ کہیں یہ لوگ ٹھہر گئے تو شہر کی واقعی حالت ضرورہی روشن ہوجائے گی۔ نہ جانے اس کا کیا انجام ہو۔ بولے یہاں کی ظاہری دلفریبی کے دھوکے میں نہ آئے۔ آب وہوا بہت خراب ہے، آگے جاکر آپ کو اس سے زیادہ بہتر مقامات دیکھنے کو ملیں گے۔سوفیا کچھ ہی ہو، میں یہاں دو ہفتے ضروری ہی رہوں گی۔ کیوں ولیم تمہیں یہاں سے جانے کی جلدی تو نہیں ہے؟کلارک تم یہاں رہو تو میں دفن ہو جانے کو تیار ہوں۔سوفیا لیجئے سردار صاحب ولیم کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔سوفیا کو سردار صاحب کے دق کرنے میں مزہ آرہا تھا۔نیل کنٹھ پھر بھی میں آپ سے یہی عرض کروں گا کہ جسونت نگر بہت اچھی جگہ نہیں ہے۔ آب و ہوا کی خرابی کے علاوہ یہاں کی رعایا میں بدامنی کی علامات پیدا ہو گئی ہیں۔سوفیا جب تو ہمارا یہاں رہنا اور بھی ضروری ہے، میں نے کسی ریاست میں یہ شکایت نہیں سنی۔ گورنمنٹ نے ریاستوں کو اندرونی انتظامات میں خود مختار بنا رکھا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ریاستوں میں بغاوت کے جراثیم کو نشونما پانے کا موقع دیا جائے، اس کی ذمہ داری ریاست کے حکام پر ہے اور گورنمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ اس غفلت کے لیے ان سے اطمینان بخش جواب طلب کرے۔سردار صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سوفیا سے انہوں نے یہ بات بے خوف ہوکر کہہ دی تھی۔ اس کی منکسرمزاجی سے انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ میری نذر ونیاز نے اپنا کام کر دکھایا۔ وہ کچھ بے تکلف ہو گئے تھے، یہ ڈانٹ پڑی تو آنکھیں چندھیا گئیں، التجا کے لہجہ میں بولے، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر چہ ریاست پر موجودہ حالات کی ذمہ داری ہے تاہم ہم لوگوں نے حتی الامکان حالات کو درست رکھنے کی کوشش کی اور اب بھی کررہے ہیں۔ یہ بدامنی کا بیج اس مقام سے آیا جہاں سے اس کے آنے کا کوئی خیال نہ تھا یا یوں کہیے کہ زہر کے قطرے سنہرے برتنوں میں لائے گئے۔ بنارس کے رئیس کنور بھرت سنگھ کے والنٹیروں نے کچھ ایسی ہوشیاری سے کام کیا کہ ہمیں خبر تک نہ ہوئی۔ ڈاکوؤں سے دولت کی حفاظت کی جا سکتی ہے مگر سادھوؤں سے نہیں۔ رضا کاروں نے خدمت کی آڑ میں یہاں کی بیوقوف رعایا پر ایسا منتر پھونکا کہ اس کے اتارنے میں ریاست کو بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خصوصاً کنور صاحب کا لڑکا نہایت شریر طبیعت کا آدمی ہے۔ ہم لوگوں کی نیند حرام ہوگئی، ہر لمحہ بغاوت کی آگ بھڑک اٹھنے کا اندیشہ تھا، یہاں تک کہ ہمیں صدر سے فوجی کمک روانہ کرنی پڑی۔ونے سنگھ تو کسی طرح گرفتار ہو گیا مگر اس کے دیگر رفقاء ابھی تک علاقہ میں چھپے ہوئے رعایا کو اکسا رہے ہیں۔ کئی بار یہاں سرکاری خزانہ لٹ چکا ہے۔ کئی بار ونے کو جیل سے نکال لے جانے کی کوشش کی جاچکی ہے اور ملازمین کو ہمیشہ اپنی جانوں کا خوف بنا رہتا ہے۔ مجھے مجبور ہوکر آپ سے یہ حال بیان کرنا پڑا۔ میں آپ کو یہاں ٹھہرنے کی صلاح ہرگز نہ دوں گا، اب آپ خود سمجھ سکتی ہیں کہ ہم لوگوں نے جو کچھ کیا، اس کے سوا اور کیا کر سکتے تھے؟سوفیا نے بہت زیادہ متفکرانہ انداز سے کہا، واقعی حالت اس سے زیادہ تشویش ناک ہے جتنا میں سمجھتی تھی۔ ایسی حالت میں ولیم کا یہاں سے چلاجانا فرض کے خلاف ہوگا۔ وہ یہاں گورنمنٹ کے قائم مقام ہوکر آئے ہیں، صرف سیروتفریح کے لیے نہیں۔ کیوں ولیم تمہیں یہاں رہنے میں کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ یہاں کے حالات کی رپورٹ بھی تو بھیجنی پڑےگی۔ مسٹرکلارک نے شراب کا ایک گھونٹ پیتے ہوئے جواب دیا، تمہاری مرضی ہوتو جہنم میں بھی بہشت کی خوشی حاصل کرسکتا ہوں۔ رہا رپورٹ کا لکھنا وہ تو تمہارا کام ہے۔نیل کنٹھ میری آپ سے مؤدبانہ عرض ہے کہ ریاست کو سنبھلنے کے لیے کچھ اور وقت دیجئے، آپ کا رپورٹ بھیجنا ہمارے لیے مضر ہوگا۔اقتباس طویل ذرا زائد ہو گیا۔ لیکن باہنر مصور کی ہنرمندی کے نمونے دکھانے میں بخل بھی کہاں تک روا رکھا جائے، ریاستوں کی بے بسی، میم صاحب کی ذہانت و ذکاوت اور سب سے بڑھ کر صاحب بہادر کے بے پناہ اختیارات کی ہمہ گیری، ہر شئے ان میں سے اپنے اپنے موقع پر کیسی جَڑی اور اور کیسی جُڑی ہوئی ہے۔ اسی کا نام ہے قلم کی مرصع کاری۔ بات ذرا الگ ہوئی جاتی ہے، لیکن کلکٹر صاحب کی اس خدائی پر اکبرؔ کا ایک شعر بے ساختہ یا د آ گیا۔ اپنے ہم مذہبوں کے سامنے، خدا تعالیٰ کی قدرت کا وعظ فرماتے تو کہتے ہیں کہ موضوع کو طول کہاں تک دوں، بس یہ سمجھ لو، کہ خدا تعالیٰ کو وہ اختیارات حاصل ہیں، جو صاحب کلکٹر بہادر کو ہوتے ہیں۔ (نعوذ باللہ) اس قدرت کا کہاں تک میں کروں تم سے بیاںمیں تو اللہ تعالیٰ کو کلکٹر سمجھا’’کہاں تک‘‘ کی بلاغت قابل داد ہے۔ شاعر بیان کرتے کرتے تھک گیا ہے آخر میں مختصر اور جامع مثال اسے کلکٹر ہی کی نظر آتی ہے۔شہری زندگی کی نقاشی بہتوں نے کی ہے۔ اسکول اور کالج میں، پارک اور چمن میں، کچہری میں اور اسٹیشن پر سب ہی گھومے پھرے ہیں۔ کھیت کی مینڈوں پر کوئی کم ہی چلاہے۔ دیہات کے چوپالوں میں، اہیروں اور بھرجیوں کی جھونپڑیوں میں کم ہی کسی کے قدم گئے ہیں۔ پریم چند کے قلم کی اصل جولان گاہ یہی ہے۔ ا ن کے دوسرے لوازم میں تو ان کے نظیر مل بھی جائیں گے لیکن جہاں تک دیہاتی زندگی کی مصوری کا تعلق ہے، اب تک تو پریم چند کے جوڑ کا کوئی نظر نہیں پڑا۔ دیہات کے جس جس منظر کا سماں دکھلاتے ہیں، اسے دور سے بتلاتے نہیں گویا اٹھاکر وہیں پہنچا دیتے ہیں۔ ایک گاؤں ہے اور برسات کا موسم کہ اتنے میں موضع کے زمیندار ٹھاکر صاحب وہاں دورہ فرماتے ہیں۔ گاؤں کی لہلہاہٹ اور ٹھاکر صاحب کی قہرمانی دونوں ملاحظہ ہوں،’’اساڑھ کا مہینہ تھا۔ کسان گہنے اور برتن بیچ بیچ کر بیلوں کی تلاش میں دربدر پھرتے تھے۔ گاؤں کی بوڑھی بنیائن نویلی دلہن بنی ہوئی تھی اور فاقہ کش کمہار بارات کا دولہا تھا۔ مزدور موقع کے بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ ٹپکتی ہوئی چھتیں ان کی نگاہ کرم کی منتظر۔ گھاس ڈھکے ہوئے کھیت ان کے دست شفقت کے محتاج، جسے چاہتے تھے بساتے تھے جسے چاہتے تھے اجاڑتے تھے، آم اور جامن کے پیڑوں پر آٹھوں پہر نشانہ باز منچلے لڑکوں کا محاصرہ رہتا تھا۔ بوڑھے گردنوں میں جھولے لٹکائے پہر رات سے ٹپکے کے کھوج میں گھومتے نظر آتے تھے، جو باوجود پیرانہ سالی کے بھجن اور جاپ سے زیادہ دلچسپ اور پرمزہ شغل تھا۔ نالے پر شور، ندیاں اتھاہ، چاروں طرف ہریالی اور سبزہ اور نزہت کا حسنِ بسیط۔ انہیں دنوں ٹھاکر صاحب مرگ بے ہنگام کی طرح گاؤں میں آئے، ایک سجی ہوئی بارات تھی۔ ہاتھی اور گھوڑے اور سازو سامان، لٹھیتوں کا ایک رسالہ تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے طمطراق اور کروفر دیکھا تو رہے سہے ہوش اڑ گئے، گھوڑے کھیتوں میں اینڈنے لگے اور گنڈے گلیوں میں۔‘‘دوسرا منظر ’’دوسرا اساڑھ آیا تو وہ گاؤں پھر رشک گلزار بنا ہوا تھا۔ بچے پھر اپنے دروازوں پر گھروندے بنانے لگے، مردوں کے بلند نغمے کھیتوں میں سنائی دیے اور عورتوں کے سہانے گیت۔ چکیوں پر زندگی کے دلفریب جلوے نظر آنے لگے۔ سال بھر اور گزرا۔ جب ربیع کی دوسری فصل آئی تو سنہری بالیوں کو کھیتوں میں لہراتے دیکھ کر کسانوں کے دل لہرانے لگے تھے۔ سال بھر کی افتادہ زمین نے سونا اگل دیا تھا۔ عورتیں خوش تھیں کہ اب کے نئے نئے گہنے بنوائیں گے، مرد خوش تھے کہ اچھے اچھے بیل مول لیں گے، اور داروغہ جی کی مسرت کی تو کوئی انتہا نہ تھی۔ ٹھاکر صاحب نے یہ خوش آئندخبریں سنیں اور دیہات کی سیر کو چلے۔ وہی تزک و احتشام، وہی لٹھیتوں کا رسالہ، وہی گنڈوں کی فوج! گاؤں والوں نے ان کی خاطر و تعظیم کی تیاریاں کرنی شروع کیں۔ موٹے تازے بکروں کا ایک پورا گلہ چوپال کے دروازے پر باندھ کر لکڑی کے انبار لگا دیے۔ دودھ کے حوض بھر دیے، ٹھاکر صاحب گاؤں کے مینڈے پر پہنچے تو پورے ایک سو آدمی ان کی پیشوائی کے لئے دست بستہ کھڑے تھے۔‘‘چوگان ہستی میں اگر کمال یہ تھا کہ پلاٹ کی بندش، اتنی طوالت و ضخامت کے باوجود کہیں سے سست نہیں ہونے پائی اور دل آویزی میں خلل پڑنے کا کوئی لمحہ نہ آنے پایا تو یہ چھوٹے چھوٹے افسانے بھی جن کے مجموعے کا نام پریم پچیسی ہے، اور اس کی بھی دوجلدیں ہیں اور اپنی نظیر بس آپ ہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دلکش جملوں میں عجیب موہنی ہے۔ ہر ہر فقرہ گویا موتیوں کی لڑی۔ فریب نظر کی حدیہ ہے کہ آپ خود اپنے متعلق دھوکے میں پڑجاتے ے ہیں۔ یہ یاد نہیں رہ جاتا کہ سامنے کتاب کھلی ہوئی ہے اور آپ کسی کی سرگزشت پڑھ رہے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ تو خود ہمارے ہی اوپر سب گزرتی چلی جا رہی ہے۔ بچے بھی ہمیں، بوڑھے بھی ہمیں، ہمیں ظالم، ہمیں مظلوم، ابھی ہنس بھی ہم ہی رہے تھے، ابھی رونے بھی ہم لگے۔ تماشائی کی حیثیت غائب، تماشا ہم خود۔شرافت ان کی تحریر کی جان ہے اور پاکیزگی ان کے قلم کا ایمان۔ منظر کیسا ہی گندہ ہو، ان کی نظر انتخاب ہمیشہ انہیں عنصروں کو چن لیتی ہے جو نفس کو نہیں روح کو تڑپائیں، جذبات کے سفلی نہیں علوی حصے کو گرمائیں اور بدی کی نہیں نیکی کی قوت کو حرکت میں لائیں۔سمن ایک شریف ہندو گجادھر پرشاد کی بیوی ہے۔ پڑوس میں رام بھولی ایک بازاری عورت آکر رہتی ہے۔ بچپن کی بات سمن کی کان میں پڑی ہوئی ہے کہ بیسواؤں کا پیشہ ہی ذلیل ہے اور کوئی بھلا آدمی ان کی طرف رخ بھی نہیں کرتا۔ اب اپنی آنکھ سے جو کچھ دیکھتی ہے، اس پر اسے اچنبھا ہوکر رہ جاتا ہے اور نفس کی نظروں میں اگر بدی سرتاسر خوشنما نہیں نظر آنے لگتی ہے تو کم ازکم پیشتر کی سی بدنما اور گھناؤنی تو یقیناً نہیں باقی رہ جاتی۔’’سمن کے مکان کے سامنے بھولی نام کی ایک طوائف کا مکان تھا۔ بھولی نت نئے سنگار کرکے اپنے بالاخانے کے جھروکے پر بیٹھا کرتی۔ پہر رات تک اس کے کمرہ سے نغمۂ خوش آیند کی صدائیں آیا کرتیں، کبھی کبھی وہ فٹن پر سوار ہوکر ہوا کھانے جایا کرتی۔ سمن اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ سمن نے سن رکھا تھا کہ طوائفیں بہت ذلیل اور بدکار ہوتی ہیں، وہ اپنے ناز اور انداز سے نوجوانوں کو اپنے دام محبت میں پھنسا لیا کرتی ہیں۔ کوئی شریف آدمی ان سے بات چیت نہیں کرتا۔ محض شوقین لوگ رات کو چھپ کر ان کے یہاں جایا کرتے ہیں۔ بھولی نے کئی بار اسے چق کی آڑ میں کھڑے دیکھ کر اشارہ سے بلایا تھا، پرسمن اس سے بولنا بھی اپنا شان کے خلاف سمجھتی تھی۔ میں غریب سہی پر اپنی عصمت پر تو قائم ہوں، کسی شریف آدمی کے گھر میں میری روک تو نہیں ہوتی۔ کتنا ہی عیش وآرام کرے پر اس کی کہیں عزت تو نہیں ہوتی۔ بس اپنے کوٹھے پر بیٹھی اپنی بے شرمی اور اپنی بے حیائی کا سوانگ دکھایا کرے لیکن سمن کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اسے حقیر سمجھنا میری غلطی ہے۔اساڑھ کے دن تھے۔ گرمی کے مارے سمن کا دم گھٹ رہا تھا۔ شام کے وقت اس سے اندر نہ رہا گیا، اس نے چق اٹھادی اور دروازے پر بیٹھی پنکھا جھل رہی تھی تو کیا دیکھتی ہے کہ بھولی بائی کے دروازے پر کسی تقریب کی تیاریاں ہو رہی ہیں، بہشتی پانی چھڑکاؤ کر رہے تھے، صحن میں ایک شامیانہ تانا جا رہا تھا، شیشہ آلات ٹھیلوں پر لدے چلے آتے تھے، فرش بچھایا جا رہا تھا، بیسیوں آدمی ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے۔ اتنے میں بھولی کی نگاہ سمن کی طرف اٹھی۔ قریب آکر بولی، آج میرے یہاں مولود ہے دیکھنا چاہو تو پردہ کرا دوں؟ سمن نے بے پروائی سے کہا، ’’میں یہیں بیٹھے بیٹھے دیکھ لوں گی۔‘‘بھولی دیکھ تو لوگی پر سن نہ سکوگی ہر ج ہی کیا ہے، اوپر پردہ کرا دوں؟سمن مجھے سننے کی اتنی خواہش نہیں ہے۔بھولی نے اس کی طرف ایک نگاہ ترحم سے دیکھا اور دل میں کہا یہ گنوارن شاید دیہات سے آئی ہے اپنے دل میں نہ جانے کیا سمجھے بیٹھی ہے۔ اچھا تو دیکھ لے کہ میں کون کہوں۔ اس نے زیادہ اصرار نہ کیا۔ رات ہو رہی تھی۔ چولہے کی صورت دیکھ کر سمن کی روح کانپ رہی تھی۔ پر طوعاً و کرہاً اٹھی، چولہا جلایا، کھچڑی ڈالی اور پھر دروازے پر آکر تماشا دیکھنے لگی۔ آٹھ بجتے بجتے شامیانہ گیس کی روشنی سے گنبد نور بن گیا۔ پھول پتوں کی آرائش سونے پر سہاگہ تھی۔ تماشائی چاروں طرف سے آنے لگے۔ کوئی بائیسکل پر آتا تھا، کوئی ٹم ٹم پر، کوئی پیدل۔ تھوڑی دیر میں دوتین فٹنیں بھی آپہنچی۔ ایک گھنٹہ میں سارا صحن بھر گیا۔ اس کے بعد مولانا صاحب تشریف لائے۔ ان کے چہرے سے اک جلال برستا تھا اور وہ آراستہ تخت پر مسند لگا کر آبیٹھے اور مولود شروع ہو گیا۔کئی آدمی مہمانوں کی تواضع و تکریم کرنے لگے۔ کوئی گلاب چھڑکتا تھا، کوئی خاصدان پیش کرتا تھا۔ سمن نے شرفاکی ایسی مجلس کبھی نہ دیکھی تھی۔نوبجے گجادھر پرشاد آئے۔ سمن نے انہیں کھانا کھلایا، گجادھر کھانا کھا کر اسی مجلس میں شریک ہو گئے اور سمن کوتو کھانے کی سدھ ہی نہ تھی۔ گیارہ بجے رات تک وہ وہیں بیٹھی رہی، پھر شیرینی تقسیم ہوئی اور بارہ بجے مجلس ختم ہو گئی۔ گجادھر گھرآئے تو سمن نے کہا، ’’یہ سب کون لوگ بیٹھے ہوے تھے؟‘‘گجادھر میں سب کو پہچانتا تھوڑے ہی ہوں، بھلے برے سبھی ہوں گے۔ شہر کے کئی رئیس بھی تھے۔سمن کیا یہ لوگ ایک طوائف کے گھر آنے میں اپنی توہین نہیں سمجھتے؟گجادھر توہین سمجھتے تو آتے ہی کیوں؟سمن تمہیں تو ہاں جاتے ہوئے شرم آئی ہوگی؟گجادھر جب اتنے شرفا بیٹھے تھے تو مجھے شرم کیوں آنے لگی، وہ سیٹھ جی بھی آئے تھے جن کے یہاں میں شام کو جایا کرتا ہوں۔سمن نے پرخیال انداز سے کہا، ’’میں سمجھتی تھی کہ ان عورتوں کو لوگ بہت ذلیل سمجھتے ہیں۔‘‘گجادھر ہاں ایسے لوگ بھی ہیں پر گنے گنائے۔ انگریزی تعلیم نے لوگوں کو آزاد بنا دیا ہے، بھولی بائی کی شہر میں بڑی عزت ہے۔آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا بالکل بند تھی۔ گجادھر پرشاد دن بھر کے تھکے ہوئے تھے۔ چار پائی پرجاتے ہی سو گئے پر سمن کو نیند نہ آئی۔ دوسرے دن شام کے وقت جب وہ پھر چق اٹھا کر بیٹھی تو اس نے بھولی بائی کو چھجے پر بیٹھے دیکھا۔ وہ برآمدہ سے نکل کر خود بھولی سے بولی، ’’رات تو آپ کے یہاں بڑی دھوم تھی۔‘‘ بھولی سمجھ گئی کہ میری فتح ہوئی۔ مسکر اکر بولی، تمہارے لیے شیرینی بھیج دوں؟ حلوائی کی بنا ئی ہوئی ہے اور برہمن لایا ہے۔ سمن نے شرماتے ہوئے کہا، ’’بھجوا دیجئےگا۔‘‘ہماری معاشرت جس طرح شیطان کی اعزازی ایجنٹ بنی ہوئی ہے، اس کی تصویر اس سے بڑھ کر لطیف بھی اور پردرد بھی اور کیا ہوگی؟ لوگ قصے کہانیوں کو محض لطف وتفریح کے لیے پڑھتے ہیں لیکن اس لطف کے ساتھ ہی ساتھ اگر نفع بھی منظور ہو، بدی کی مخفی راہوں کا علم، شیطنت کی خفیہ چالوں کا احساس، وطنیت کا صحیح جذبہ، اور ایثار، اخلاص، اور خدمت خلق کی تربیت بھی اگر مدنظر ہو تو ایسی شیریں خوشگوار کنین پریم چند ہی کے دواخانہ میں دستیاب ہوگی۔ اور ہندوستان میں تحریک وطنیت کے آئندہ مؤرخ کو جس طرح گاندھی، نہرو، محمد علی، ابوالکلام، کی تحریروں کی ایک ایک سطر کی چھان بین ناگزیر ہوگی، اسی طرح پریم چند کے بھی افسانوں کو الٹ پلٹ کیے بغیر کا م نہ چلےگا۔حاشیے(۱) لاہور کا ایک پرانا اور اپنے زمانہ میں بہت ہی مشہور و مقبول اخبار پیسہ اخبار تھا۔ اس نے جاسوسی ناول بھی کثرت سے اور بڑے ارزاں شائع کیے تھے۔(۲) ’’ادب لطیف‘‘ جب اول اول اردو میں چلا ہے، تو اس میں لغات کی خوب بھرمار رہتی تھی۔ ’قاموسی‘ میں یہی تلمیح ہے۔