پریم

اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑجانا کیسا ہوتا ہے؟ انسان دوسروں کو تو نہیں چھوڑتا کہ وہ موجود رہتے ہیں، بیدار ہوتے ہیں، سوتے ہیں، کھاتے پیتے اور ہنستے بھی ہیں۔۔۔ وہ اپنے آپ کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کو، اپنی آنکھوں کو، پیاس اور بھوک کو، جاگنے اور مسکرانے کو بھی۔ جس لمحے وہ اپنے آپ کو چھوڑ کر جاتا ہے، اس کے بعد آسمان پر ایک پرندہ تیرتا ہے مگر اس کے آس پاس آنکھیں نہیں ہوتیں اسے دیکھنے کے لیے۔ اسی لمحے ایک کھڑکی کھلتی ہے اور ایک آواز آتی ہے مگر اس کے پاس کان نہیں ہوتے کہ وہ سنے۔ درخت، راستے، موسم، زبانوں کے ذائقے اسے اپنے آپ سے نوچ کر بہت پرے پھینک دیتے ہیں۔ اپنے آپ سے علیحدہ کردیتے ہیں۔


چنانچہ انسان دوستوں کو تو نہیں چھوڑتا۔ یہ تمام چیزیں اسے چھوڑ دیتی ہیں اور یوں وہ اپنے آپ کو چھوڑ دیتا ہے لیکن اس عبارت کا پریم سے کیا تعلق؟ پریم کہانی سے کیا رشتہ؟ بلکہ پریم کہانی سے۔ شاید کچھ بھی نہیں۔ شاید میں نے یہ عبارت اس لیے لکھ دی ہے کہ میری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا میں پریم کی کہانی کا آغاز کس طرح کروں اور میں نے ایک تماشہ دکھانے والے کی طرح لفظوں کی پرپیچ ڈگڈگی بجا کر آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ مگر میرے تھیلے میں کوئی ایسی حیرت انگیز چیز نہیں جو آپ لوگوں کی دلچسپی کا سامان بن چکے۔ پھر میں نے خواہ مخواہ ڈگڈگی کیوں بجائی؟ اس لیے کہ یہ میرا پیشہ ہے، لوگوں کو چونکانا، انہیں اپنے گرد جمع کر کے یہ باور کرانا کہ میں ایک بہت ہی عظیم ادیب ہوں۔ حالانکہ میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔


لیکن پلیز ٹھہریے، میرا تھیلا اتنا خالی بھی نہیں، اس میں چند خطوط ہیں۔ اور ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میری تحریروں پر ہمیشہ موت کا زردرو سایہ رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید اس لیے کہ میں موت سے خوف زدہ تو ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ مجھے مسحور بھی کرتی ہے۔ اس زرد بدن محبوبہ سے ہم آغوشی کی فنا چاہت میرے جسم کو بغاوت کا پیغام بھی دیتی ہے۔ زندگی کے بیشتر تجربوں میں سے گزرنے، انہیں بیان کرنے کے بعد ایک تشنگی سی رہتی ہے کہ ایک تجربہ ایسا ہے جس میں سے میں نہیں گزرا۔ حالانکہ اس میں سے گزر کر تو انسان بس گزر جاتا ہے، اسے مقید تو نہیں کر سکتا مگر پھر بھی۔۔۔ یہ فنا کا خوف ہی تو ہے جو انسان کو تخلیق پر ابھارتا ہے، وہ چیزوں کو ان کی موت سے قبل لفظوں میں ڈھال کر دوام دینا چاہتا ہے۔۔۔ بہرحال پریم کہانی کا تعلق شاید موت سے بھی نہیں۔۔۔ یہ ایک اور ڈگڈگی تھی جو میں نے بجائی تاکہ آپ میری بات سننے کے لیے تیار ہو جائیں۔


ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میرے مداری کے تھیلے میں چند خطوط ہیں، سیکڑوں میں سے صرف چند جو ادھر ادھر اوجھل ہوکر پڑے رہے، ورنہ میں انہیں بھی اپنے بیشتر خطوں کی مانند پرزہ پرزہ کرچکا ہوتا۔ میرے سفرناموں کی طرح ان خطوں کی سچائی کا ثبوت بھی میرے پاس موجود نہیں اور آپ بجاطور پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ یہ میرے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں اور بفرض محال اگر سچ مچ ایسے خطوط موجود ہیں تو وہ پریم کے نہیں کسی اور کے لکھے ہوئے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر انہیں کسی ماہر تحریر کو دکھایا جائے تب فیصلہ ہوسکتا ہے کہ پریم کی کہانی سچ ہے یا صرف ذہن کی پیداوار، مگر ماہر تحریر کو تو موازنے کے لیے پریم کی ایک آدھ اوریجنل تحریر حاصل کرنا ہوگی جو فی الحال تو قدرے ناممکن ہے کہ میں نے آج تک نہ تو پریم کو دیکھا ہے اور نہ اس کی آواز سنی ہے۔ البتہ میرے پاس اس کی تصویریں ضرور موجود ہیں۔ مگر تصویر تو شاید لکھ نہیں سکتی۔


گرمیوں کی ایک گرم دوپہر کو (گرمیوں کی دوپہریں ہمیشہ گرم ہی ہوتی ہیں۔۔۔ ہاہا) میں حسب معمول دکان پر براجمان تھا۔ ایک ایسے بیج کی طرح جو برف باری کے موسموں میں زمین میں دبا رہتا ہے خوابیدہ حالت میں۔ میں اسی قسم کی خوابیدہ حالت میں بیٹھا تھا کہ ایک ’السلام علیکم‘ نے میری کھلی ہوئی آنکھوں کو، جو پہلے اپنے آگے حرکت کرنے والی اشیاء کو دیکھ تو رہی تھیں قبول نہیں کر رہی تھیں، مزید کھول دیا اور میں نے ارشد کو دیکھا۔ وہ عجلت میں تھا۔


’’یار میرا ایک کام کرو۔‘‘ اس نے جیب سے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر میز پر رکھا اور اسے تھپکنے لگا، ’’میری ایک قلمی دوست ہے ڈلہوزی میں، شیلا۔۔۔ ہاں ہاں انڈیا میں۔۔۔ اس کی ایک کلاس فیلو پاکستان میں کسی ’مناسب شخص‘ کے ساتھ قلمی دوستی کرنا چاہتی ہے۔‘‘


’مناسب شخص‘ کی خصوصیات اس تہہ شدہ کاغذ میں درج تھیں جسے ارشد بدستور تھپک رہا تھا۔


محترم ارشد صاحب!
میں آپ کی قلمی دوست شیلا کی کلاس فیلو ہوں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میں میرا کوئی ایسا قلمی دوست ہو جو سپورٹس کاروں میں دلچسپی رکھتا ہو (اگر کسی کار ریلی میں شامل ہو چکا ہو تو بہت بہتر ہے) موسیقی کی شدبد رکھتا ہو، رقص کرسکتا ہو، زندہ دل ہو اور لوگوں کو پسند کرتا ہو، انگریزی زبان پر عبور رکھتا ہو اور گڈ لکنگ ہو۔ میں بے حد شکرگزار ہوں گی، اگر آپ میرے خط کو اپنے کسی ایسے دوست کے حوالے کر دیں جو ان خصوصیات کے قریب تر ہو۔ شکریہ! پریم خانگراہ۔ سیکرڈ ہارٹ کالج۔ ڈلہوزی۔ ہماچل پردیش (انڈیا)


میں نے یہ ڈیمانڈ ڈرافٹ پڑھا اور شکریے کے ساتھ ارشد کے آگے رکھ دیا، ’’اس خاتون کو سٹرلنگ موس، اودے شنکر، باب ہوپ، گریگوری پیک اور برٹرنڈ رسل کے آمیزے سے وجود میں آنے والا کوئی شخص درکار ہے۔۔۔ سوری۔‘‘


ارشد کے ہونٹ لرزے اور چہرے پر وہ کیفیت نمودار ہوئی جسے منہ بسورنا کہتے ہیں۔ اس حالت میں وہ بے حد مسکین اور معصوم نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے موقعوں پر میں لاشعوری طور پر ٹافی یا میٹھی سونف کے پیکٹ کے لیے اپنی جیبیں ٹٹولنے لگتا ہوں۔


’’اور پھر یار میں عمر کے اس حصے کو پھلانگ چکا ہوں، جب قلمی دوستی ایسے فضول مشاغل پر وقت ضائع کیا جاتا ہے۔‘‘ میں نے اپنے دفاع میں کہا۔


’’پلیز میرے لیے۔۔۔ یہ شیلا کی پہلی فرمائش ہے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گی۔‘‘ ارشد بلیاں بناتے ہوئے پلکیں جھپک کر بولا، ’’اور پھر اس لڑکی کا نام تو دیکھو کتنا خوبصورت ہے، پریم۔۔۔‘‘


’’پریم؟‘‘ میں چونک گیا۔ خط پڑھنے کے باوجود میں نے نام پر غور نہیں کیا تھا۔


’’ہاں۔ اتنا خوبصورت نام اور اوپر سے سکھنی بھی ہے۔‘‘


’’سکھنی؟‘‘ میں نے پراشتیاق لہجے میں پوچھا۔


’’ہاں بڑی ڈبل قسم کی۔‘‘ اس نے سکوٹر کی چابی میز پر سے اٹھائی اور دکان سے باہر چلا گیا۔


دوسرے روز میں نے اس خوبصورت نام والی اجنبی لڑکی اور سکھنی کو چند سطروں کا ایک خط لکھ دیا۔ غیر ارادی طور پر میری تحریر میں زہر آلودگی کا عنصر نمایاں تھا۔ شاید اس لیے کہ اس نے سپورٹس کاروں کا ذکر کیا تھا اور مجھ میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ سپورٹس سائیکل خرید سکتا۔ وہ مجھے اپنی ان ڈیمانڈز میں ایک بدبودار حد تک امیر اور نک چڑھی سی کُڑی لگی۔ ایک ایسی ہی پاکستانی لڑکی کی طرح جو مجھے اچھی لگتی تھی مگر ایک روز جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ روزانہ اپنے بالوں کو شمپو کی بجائے درآمد شدہ بیئر کی دو بوتلوں سے دھوتی ہے تو میرا تمام تر ذاتی اعتماد بیئر کے جھاگ کی طرح ہی بیٹھ گیا اور میرا احساس کمتری جو میں خود فراموشی کے شیلف پر رکھ کر بھول چکا تھا، دھڑام سے میرے سر پر آگرا۔ میں نے فی الفور اپنے آپ کو اس کے مداحوں کے گروہ سے علیحدہ کر لیا۔ بہرحال دوسرے روز میں نے اس خوبصورت نام والی اجنبی لڑکی اور سکھنی کو چند سطروں کا خط لکھ دیا۔


اگلے ہفتے پریم کا جواب آگیا۔ بائبل کے قدیم نسخوں جیسی انگریزی تحریر میں رقم کردہ ایک آزاد، بے فکر اور دوستانہ خط جس کے آخری فقرے نے میرے چوڑے ماتھے پر شکنوں کے دھاگے کاڑھ دیے۔ لکھا تھا، ’’اگرچہ تم میں وہ خصوصیات نہیں ہیں جو میرے نزدیک ایک آئیڈیل مرد میں ہونی چاہئیں مگر اس دنیا میں کون ہے جو پرفیکٹ ہے، گزارا کر لوں گی۔‘‘ میری انا کی کھلونا ریل گاڑی ایک دھچکے سے رکی اور پٹری سے اتر کر کچھوے کی مانند اوندھی ہوگئی۔ میں نے اسے غصے اور سکھوں کے احمقانہ لطیفوں کے لیور سے بمشکل سیدھا کر کے پٹری پر ڈالا مگر پھر وہ چلی نہیں، کھڑی رہی۔ میں نے پریم کو ایک اور زہر آلود خط لکھا جس میں میں نے اس کے آئیڈیل مرد کا دل کھول کر مذاق اڑایا۔ خلافِ توقع پھر جواب آگیا۔ پریم کے خط آنے لگے۔ پہلے ہر پندرہ بیس روز کے بعد، پھر ہفتہ اور پھر شاید ہر روز ہی۔ کاروباری خطوں کے پلندوں میں سے میری نظریں اس کی آزاد اور مکمل دائروں والی تحریر کو تلاش کرنے لگیں۔ میرا زہر کم ہونے لگا۔


آج، اس وقت میرے پاس اس کے صرف چند خط ہیں، ان سیکڑوں خطوں میں سے جو پریم نے مجھے ڈلہوزی اور دہلی سے لاہور اور بارسلونا سے لکھے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں دس برس بعد اس کے بارے میں کہانی لکھوں گا تو میں یقیناً انہیں سنبھال کر رکھتا مگر مجھے معلوم نہ تھا، کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے پریم کو جتنے خط لکھے وہ تو ظاہر ہے کہ میں یہاں نقل نہیں کر سکتا کہ وہ تو پریم کے پاس ہوں گے۔ میں اب پریم کے بارے میں مزید باتیں نہیں کروں گا، وہ خود آپ سے باتیں کرے گی۔


سیکرڈ ہارٹ کالج۔ ڈلہوزی
یکم مئی ۶۸ء


پیارے مستنصر!
کتنی بے پناہ خوشی ہوئی مجھے تمہارا خط ملنے پر۔ میں انتظار کر رہی تھی۔ اتنے عرصے کے بعد پڑھائی سے چھٹکارا پالینا کتنی خوبصورت بات ہے اور میں اسی فرصت کو بہانہ بنا کر تمھیں خط لکھ رہی ہوں۔ کل انگریزی کا پرچہ تھا اور آج صبح تاریخ کا۔ پرچے تو آسان تھے مگر میں کچھ نروس ہو گئی اور خوب الٹ پلٹ جواب لکھے۔ میں نے ابھی ابھی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے امتحانوں سے نفرت ہے۔ تمہیں نہیں ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس قسم کے امتحان علم کی کسوٹی ہرگز نہیں ہوتے، بس رٹا لگایا اور امتحان کے فوراً بعد سب کچھ بھول بھال گیا۔ (مجھے یقین ہے کہ میں تمہیں بور کر رہی ہوں، سوری۔)


اچھا چھوڑو کوئی اور بات کرتے ہیں۔ مثلاً۔۔۔ ٹھیک ہے میں تمہیں اپنے اور اپنے گھر کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں۔ اگرچہ بتانے کے لیے میرے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے۔ میں اٹھارہ برس کی ہوں اور اگست میں انیس برس کی ہو جاؤں گی۔۔۔ مگر میں انیس برس کی ہونا نہیں چاہتی، صرف اٹھارہ برس کا ہونا زیادہ ایکسائٹنگ ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ہمیشہ ایک ہی عمر کی رہوں۔ میں بہت لمبے قد کی ہوں اپنے خاندان کے دیگر افراد کی طرح۔ مجھے اتنی لمبی لڑکی ہونا بالکل پسند نہیں اور مجھے ہمیشہ خواب آتے ہیں۔ میرا قد چھوٹا ہوگیا ہے اور میں اپنی سہیلیوں کے لیول پر آگئی ہوں۔ ہاں کبھی کبھار مجھے اپنا قد اچھا بھی لگتا ہے۔ کیونکہ لمبی لڑکیوں پر لباس زیادہ سجتا ہے اور وہ ہجوم میں ممتاز نظر آتی ہیں، تمہارا کیا خیال ہے؟


میرے پاپا راجستھان کے رہنے والے ہیں اور میری ماں امرتسر کے قریب کسی علاقے ماجھے کی تھی۔ مگر میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہم دہلی میں رہ رہے ہیں۔ ہمارا گھر بہت پرانا ہے اور نئی دہلی کے مرکز میں واقع ہے۔ یہ کناٹ پلیس کے بہت قریب ہے، تمہیں پتہ ہے ناں کہ کناٹ پلیس سے بہت ساری سڑکیں نکلتی ہیں۔ بڑا کھمبا روڈ انہی میں سے ایک ہے۔


میرا کمرہ پہلی منزل پر ہے اور اس کی بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں جو سڑک پر کھلتی ہیں، میں تمام دن ٹریفک کو دیکھتی ہوں۔ میں ہمیشہ خواب دیکھتی رہتی ہوں اور باہر دیکھتی رہتی ہوں۔ تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تمہارے بہت سارے بہن بھائی ہیں۔ میں اس شے سے محروم ہوں اور ان کی کمی محسوس کرتی ہوں۔ میرا صرف ایک بھائی ہے، اندرجیت۔ مگر جب بھی میں چھٹیوں میں گھر جاتی ہوں تو وہ تمام دن کالج میں گزارتا ہے اور باقی وقت دوستوں کے ساتھ اور یوں ہم مل نہیں سکتے۔ چنانچہ میں ہمیشہ اکیلی رہتی ہوں۔ اگرچہ مجھے لوگوں سے ملنا بہت پسند ہے۔ شاید اسی لیے میرے پاپا کو شکایت رہتی ہے کہ میرے کمرے میں دن رات میرے دوست اودھم مچاتے رہتے ہیں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ میرے پاس رہیں، مجھے اکیلا نہ چھوڑیں۔


ہاں مجھے بھی تمہاری طرح ایک طے شدہ شادی قبول کرنا ہوگی۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ مثلاً میرا باپ بالکل اتفاق نہیں کرے گا کہ میں کسی جاٹ یا سکھ کے علاوہ کسی اور شخص سے شادی کرنے کا سوچوں بھی۔ میرا خاندان بے حد قدامت پرست ہے (اور میں گھر سے بھاگ تو نہیں سکتی، بھلا مجھے کون اغوا کرے گا؟ تم کروگے؟) میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنا خاوند خود چنوں مگر مجھے اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ فی الحال میری منگنی نہیں ہوئی اور نہ مجھے خواہش ہے کہ ہو۔ میں کبھی بھی چھوٹے موٹے رومانس کو زیادہ آگے نہیں جانے دیتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ان کا اختتام شادی پر نہیں ہو سکے گا، پھر فائدہ؟ ویسے میں بہت سے لڑکوں کے ساتھ باہر جاتی ہوں، رقص کرتی ہوں۔ (میرا بھائی بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے) لیکن صرف دوستی کی حد تک۔


میں چاہتی ہوں کہ پنجہ صاحب دیکھنے کے لیے پاکستان آؤں، مگر فی الحال یہ ناممکن ہے کیونکہ میرے پاپا کاروبار نہیں چھوڑ سکتے اور ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جو میرے ساتھ جا سکے۔ میں کسی حد تک مذہبی تو ہوں مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ کوئی مذہب کو مجھ پر ٹھونسے اور زبردستی اٹھا کر گورودوارے لے جائے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری دعائیں دل سے نکلیں، کیا تم مذہب پر یقین رکھتے ہو؟ اکثر لڑکے نہیں رکھتے۔


ان سردیوں میں میں نے بہت کچھ پڑھا۔ ویلی آف ڈولز، آرمگڈون اور انجلیک وغیرہ۔ اوہ کیا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میری ایک دوست کے والد کے پاس اڈولف ہٹلر کی کار ہے۔ اس کا نام۔۔۔ ہے۔ اتنی بڑی ہے ناں اور ظاہر ہے بے حد شاہانہ۔ ہٹلر نے یہ کار کسی ہندوستانی مہاراجے کے ہاتھ فروخت کی تھی اور اس نے اسے میری دوست کے والد کے کے ہاتھ بیچ دیا۔ اتنا مزا آتا ہے اس میں بیٹھ کر۔۔۔ کبھی کبھی یوں احساس ہوتا ہے جیسے ہٹلر بھی ہمارے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن جس شے پر میں باقاعدہ عاشق ہو چکی ہوں وہ ہے ۶۷ء ماڈل کی جیگوئر۔ اتنی خوبصورت اور سمارٹ۔ میں نے جو دیکھی وہ سلور بلو تھی اور دہلی میں اڑتی پھرتی تھی۔ میرا بہت جی چاہتا ہے کہ وہ میری ہو اور اس کے علاوہ ایک سلور رولز رائس ہو اور بہت ساری نیلی مرسڈیز کاریں۔۔۔ مگر یہ سب خواب ہے۔ ایک اور کار فراری بھی بہت پاپولر ہے، طاقتور اور ایکسائٹنگ۔ اگلے خط میں میں تمہیں ڈل (ڈلہوزی) کے بارے میں لکھوں گی۔ اور پلیز جلدی لکھنا۔
پریم


کتنی احمقانہ خواہش کہ میں ہمیشہ ایک ہی عمر کی رہوں۔ میں نے ماجھے کی جٹی کی اس کانونٹ میں پڑھنے والی بیٹی کو اس خط کے جواب میں یہی کچھ لکھا، اور آخر میں یہ بھی کہ شادی کے لیے تمہارے والد کی عاید کردہ شرطوں میں سے ایک تو میں پوری کرتا ہوں کہ خالص جاٹ ہوں، البتہ فی الحال مکمل طور پر سکھ نہیں ہوں اور اس کے بارے میں تبھی سوچا جا سکتا ہے جب میرے پاس تمہاری کوئی فیصلہ کن تصویر ہو۔


ڈلہوزی
۶۸۔ ۸۔ ۲۸


ڈئیر مستنصر!
تمہیں معلوم ہے تمہارے خط نے مجھے کتنی خوشی دی؟ تمہیں نہیں پتہ۔ مجھے فالتو وقت اتنا کم ملتا ہے اور اگر مل جائے تو کوئی پرسکون جگہ نہیں ملتی۔ ہر کونے کھدرے میں لڑکیاں کیڑوں کی طرح رینگ رہی ہوتی ہیں۔ بہرحال اس وقت خوش قسمتی سے میں اکیلی ہوں، اپنے خیالات کے ساتھ اور صرف تمہارا خط میرا رفیق ہے (اور یہ کتنا خوبصورت رفیق ہے۔ تمہیں پتہ ہے؟ نہیں پتہ۔)


مستنصر! در اصل میں نے تمہیں اپنے خاندان کے بارے میں ہر چیز بالکل سچ نہیں بتائی۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے میں چھیڑنا نہیں چاہتی۔ مگر میں چاہتی ہوں کہ تم میرے دوست بنو اور میں صرف تم سے دل کا حال کہہ ڈالوں۔ میری ماں نہیں ہے۔ میں صرف نوسال کی تھی جب وہ مرگئی۔ چند برس بعد میرے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ (میں شاید اس وقت چودہ برس کی تھی) اور اب میری ایک چھوٹی سی نصف بہن ہے، وہ چار برس کی ہے اور بہت ہی پیاری۔ میں جب چھوٹی تھی تو اپنے باپ کی پرستش کیا کرتی تھی، ہاں واقعی میں تہ دل سے اسے پوجتی تھی مگر دوسری شادی کے بعد ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔ میری ماں ایک بے پناہ حسین عورت تھی (مجھے طویل قامتی ورثے میں ملی ہے اور چیزوں کے علاوہ) اور وہ مجھے بے حد یاد آتی ہے۔


ایک لڑکی کو اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ جوان ہو رہی ہوتی ہے۔ میں دنیا کی ہرشے تیاگ دوں اگر میری ماں مجھے واپس مل جائے۔ اس کے بغیر میں بے حد اکیلی ہوں۔ ویسے میرا باپ مجھ سے بے حد لاڈ کرتا ہے۔ ہمارا ایک گھر ہے۔ خوبصورت ترین اور بہت بڑا (تمام پرانے گھر ہوتے ہیں۔) میں اپنے گھر کی ایک تصویر بھیج رہی ہوں۔ میرا بیڈ روم وہ بڑی کھڑکی والا ہے۔ دائیں ہاتھ پر جہاں بیٹھ کر میں باہر دیکھتی ہوں اور خواب دیکھتی ہوں۔ میں تمہیں اپنے تمام دوستوں کے بارے میں بھی بتاناچاہتی ہوں مگر مجھے معلوم نہیں کہ میں اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوں گی۔ ان میں ایک نلنی ہے جس سے میں بے حد پیار کرتی ہوں۔ ہم سکول میں اکٹھی پڑھتی تھیں۔ اب وہ دہلی کے ایک کالج میں ہے۔ ماہیپ اور میں بھی بہت اچھی دوست ہیں۔ بہت خوبصورت لڑکی ہے اور ہر لڑکے پر نظر رکھتی ہے، جسے چاہتی ہے قابو کر لیتی ہے۔ یہ خیال کیے بغیر کہ کسی دوسری لڑکی کے جذبات مجروح ہوں گے۔


اس کی بہن پردیپ پستہ قد کی لڑکی ہے، جو ایک چشمے کی طرح پھوٹتی ہے۔ الاپے ہم سب میں سے سوبر ہے اور امبر سب سے شوخ۔ اور جن لڑکوں کے ساتھ میں گھومتی ہوں مستنصر؟ وہ پورے دہلی میں سب سے زیادہ ہینڈسم اور سب سے زیادہ نکمے ہیں۔ ایک ایسا وقت تھا جب آدھے ہندوستان میں ان کی دھوم تھی۔ میں اس گینگ میں ان کی بہن امبر کے ذریعے داخل ہوئی اور پوچی نے بھی میری مدد کی۔ میں ان لڑکوں کے بہت قریب تھی (اور ہوں۔) چیکو اور بادل جتنے ہینڈسم مرد میں نے آج تک نہیں دیکھے اور انہیں بھی اس بات کا علم ہے (یاد رہے میں نے تمہیں ابھی نہیں دیکھا۔) میں نے آج تک انہیں کسی لڑکی کے بارے میں سنجیدہ ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ ان کو صرف ایک رات کی تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ لڑکے صرف دوستوں کی حد تک تو ٹھیک ہیں، لیکن ان سے رابطہ بڑھانا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے۔


ان کی چھوٹی بہن امبر بھی ایسی ہے کہ ہر لڑکے کی طرف اتنا ہی فاصلہ طے کرتی ہے جتنا وہ کرتا ہے اور مستنصر یہ فاصلہ میرے حساب سے تو کچھ زیادہ ہی ہے۔ مجھے بادل بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ ذہانت کے معاملے میں صفر ہے اور شراب کے معاملے میں سو فیصد۔ اور اس کے علاوہ اس کا ذہن صرف ایک راستے پر چلتا ہے اور تم جانتے ہو کہ وہ کون سا راستہ ہے اور میں بہرحال اس راستے پر کھڑے رہنے کا رسک نہیں لے سکتی۔ مجھے معلوم ہے کہ جس طرح میں بتا رہی ہوں، یہ لڑکے بہت خوفناک لگتے ہیں اور مجھے ان سے نہیں ملنا چاہیے مگر دوستی کی حد تک تو حرج نہیں اور وہ بہت اچھے دوست ہیں۔


اوئے بیہودہ لڑکے کیا مطلب ہے تمہارا کہ اگر میں گندی کتابیں پڑھنا چاہتی ہوں تو بے شک پڑھوں۔ میرا رنگ ’گندی‘ کا لفظ پڑھ کر سرخ ہو گیا (ہاں سچ مچ) مجھے بالکل شوق نہیں گندی کتابیں پڑھنے کا اور اگر ’’انجلیک‘‘ پڑھتے ہوئے ایک دو مقامات ایسے آگئے تو اس میں میرا کیا قصور؟ اوہ میں اتنی خوش ہوئی یہ پڑھ کر کہ تمہیں بھی سٹائلش کپڑے پہننے کا شوق ہے۔ میں چونکہ لمبے قد کی ہوں اس لیے کپڑے مجھ پر بہت سجتے ہیں۔ مجھے بھڑ کیلے شوخ رنگ پسند ہیں۔ مثلاً چبھتا ہوا پنک، اورنج، لائم گرین اور پرپل۔ مجھے ایسے رنگ اچھے نہیں لگتے جو پھیکے اور نامعلوم سے ہوں۔ اور ہاں میرا ایک گناہ پرفیوم ہیں۔ میرے پاس بہت ہیں اور میں مرتی ہوں ان پر۔ اس مرتبہ جب میں دہلی جاؤں گی تو تمہیں وہاں سے کف لنکس بھیجوں گی۔ اچھا تو مجھے لاہور آکر گرمی کا مزہ چکھنا چاہیے۔ سچ بتاؤ مستنصر کیا میں واقعی اس گرمی میں روسٹ ہو جاؤں گی؟ ٹھیک ہے کبھی نہ کبھی میں یہ دعوت ضرور قبول کر لوں گی اور لاہور آؤں گی۔ کیا یہ دعوت ہمیشہ کے لیے برقرار ہے؟


ڈلہوزی آرام دہ حد تک خنک ہے۔ مان سون زورں پر ہیں اور بے پناہ بارش ہو رہی ہے۔ مجھے یہ موسم اچھا نہیں لگتا۔ مجھے گرمی اور دھوپ پسند ہیں۔ میرا جی چاہتاہے کہ میں اس خط میں ڈلہوزی کی سردی بند کرکے تہیں بھیج دوں، بس تھوڑی سی۔ کیا تمہیں یہ پہنچی؟ میں نے بھیج دی ہے۔ شام کو کانونٹ کی سب لڑکیاں ہوسٹل سے بھاگ کر فلم دیکھنے جارہی ہیں۔


میں تمہیں چند فضول سی تصویریں بھیج رہی ہوں۔ یہ پہلی تصویر تب کی ہے جب ہم ایک پہاڑی پر چڑھنے والے تھے اور میں اپنی ساڑھی درست کر رہی تھی۔ لڑکیاں مجھے چھیڑتی ہیں کیونکہ یوں لگتا ہے کہ میں ساڑھی اتار رہی ہوں۔ تم نے میرے لمبے بالوں پر دھیان دیا؟ میرے بال لمبے اور گھنے ہیں۔ دوسری تصویر میں جو کرتے اور چوڑی دار پاجامے میں ہے، میں ایک کڑکنے والی بجلی کا تاثر دیتی ہوں۔ مگر یہ غصہ تمہارے لیے نہیں ہے۔ بس سورج میری آنکھوں کے سامنے تھا اور میں نے منہ بنا لیا۔ تیسری تصویر تمہیں شاک کرے گی۔ کیونکہ اس میں دلہن بنی ہوئی ہوں۔ یہ ایک فینسی ڈریس کی ہے، اور دیکھو میں باقاعدہ شرما بھی رہی ہوں۔ میں اچھی لگتی ہوں ناں دلہن کے سرخ لباس میں؟ اور ہاں مجھے یاد آیا میری ان تصویروں کو دیکھ کر تم سکھ ہونے پر آمادہ ہو؟ میرا خیال ہے تمہارا ذوق اتنا برا نہ ہوگا کہ مجھے پسند کرو۔ اب مجھے خط ختم کرنا ہوگا ورنہ لفافے میں نہیں آئے گا۔ خوش رہنا مستنصر اور فوراً لکھنا مجھے۔
پریم


کتنا احمقانہ خوف کہ وہ روسٹ ہو جائے گی، جل جائے گی۔ اور ہاں پریم نے جو تصویریں بھیجیں، وہ واقعی فیصلہ کن تھیں۔ مجھے وہ اچھی لگی۔ جس تصویر میں وہ اپنی ساڑھی درست کر رہی ہے اس میں اس کی گندھی ہوئی دبیز چوٹی اس طرح لٹک رہی ہے کہ اس کے بوجھ سے پریم کا گول اور بھرا بھرا چہرہ ایک جانب جھک سا گیا ہے۔ دوسری تصویر میں اس کا لامبا قد جو اسے ماجھے کی ایک جٹی سے ورثے میں ملا ہے، یوں نکلتا دکھائی دے رہا ہے کہ اسے دیکھ کر ’’ماہی سرودے بوٹیا‘‘ کے بول مجھے پہلی مرتبہ سچ لگے۔ مائیکل انجلو کے مجسمے ’’داؤد‘‘ کی طرح اس کے بازو اتنے لمبے اور متناسب ہیں کہ جیسے وہ اسی طرح کھڑے کھڑے زمین کو چھولے گی۔ ان سب تصویروں میں سب کچھ ہے مگر خوشی نہیں ہے، جیسے راہ تک رہی ہو اور جو کچھ اسے اس راہ پر نظر آ رہا ہے وہ کچھ ایسا دل پسند نہیں۔۔۔ یہ تصویریں یقیناً فیصلہ کن تھیں مگر میں ڈھیٹ بن گیا۔ بھلا ایک ایسی لڑکی کے لیے جن کی آواز سنی نہ ہو، چہرہ دیکھا نہ ہو اس کے لیے سکھ ہو جانے کا خیال، کیا ایک سکھوں ایسا خیال نہیں ہے؟
ڈلہوزی
۲۳نومبر ۶۸ء


ہیلو اجنبی!
میں تم سے بے حد ناراض ہوں۔ تم نے بھلا دیا ہے اور لکھتے تک نہیں۔ میرا جی چاہتا ہے میں تم سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لوں اور کبھی نہ لکھوں۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ تم اتنے ظالم ہو کہ جب میں نے تم سے درخواست بھی کی تھی کہ لکھتے رہنا تو کیوں نہیں لکھا مجھے؟ تمہارا خط آنے پر میں نرم پڑ گئی۔ اگرچہ ایک طویل اور خوبصورت خط تھا مگر پھر بھی کسی طور تاخیر کا مداوا نہ تھا۔ چلو فوراً معافی مانگو مجھ سے کہ آئندہ ایسا نہیں کروگے۔


میرے امتحان ختم ہو گئے اور میں اب جتنا جی چاہے اونگھ سکتی ہوں۔ آج نتیجے کا اعلان ہوا۔ اس امر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے میں نے پچھلا ایک ماہ دہلی میں خوب مزے کیے۔ رزلٹ اتنا برا نہ تھا البتہ انگریزی میں کچھ کمی رہ گئی ہے جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔ پچھلے برس میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا۔


کچھ عرصے سے راہباؤں کے ساتھ میری بہت کھٹ پٹ رہتی ہے۔ تمہیں راہباؤں اور ان کے عادات و اطوار کے بارے میں کچھ علم ہے؟ میرا خیال ہے کہ راہبائیں بہت وحشت ناک چیزیں ہوتی ہیں اور میرے ایسی چھوٹی اور بھولی لڑکیوں کو ان کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔ زندگی اور محبت کے بارے میں ان کے نظریات بہت گمراہ کن ہوتے ہیں۔ ادھر ذرا سی بات ہوئی اور ادھر انہوں نے ایک گندی تاویل نکال لی۔ جی نہیں چاہتا یہاں رہنے کو مگر مجبوری ہے۔ پاپا مجھے دہلی میں داخلہ لے کر نہیں دیتے۔ خیر صرف ایک برس رہ گیا ہے اس ٹھنڈے جہنم میں اور پھر چھٹی ہمیشہ کے لیے۔ کیا تمہیں میری باتیں بچکانہ لگتی ہیں؟


سو میرے ہینڈسم دوست تم ابھی تک پرانی محبتوں کو نہیں بھولے؟ محبت کتنی خوفناک چیز ہوتی ہے۔ تم ایک اجنبی کو اپنا مالک بنا کر تمام تر طاقت اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہو۔ دکھ دینے کی، خوشی دینے کی، اداس کرنے کی طاقت۔ کسی کو بھی اتنا اختیار نہیں دینا چاہیے اپنے اوپر۔ میں تمہیں چیکو کے بارے میں بتاؤں؟ وہ امبر اور بادل کا بڑا بھائی ہے۔ میں پندرہ برس کی تھی جب اسے ایک شادی پر پہلی مرتبہ ملی اور تب سے اسے چاہتی ہوں۔ وہ بھی مجھے چاہتا ہے مگر ہمارا ذہنی رجحان ایسا ہے کہ ہم زیادہ دیر تک ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ وہ بنیادی طور پر ایک لڑکی کے ساتھ گزارہ کرنے والا مرد نہیں ہے۔ ہر لڑکی کے ساتھ محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور میں ایک بیوی کی حیثیت سے یہ کبھی برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ بہر حال وہ فی الحال مجھ سے شادی نہیں کر سکتا اور شادی کے بغیر میں اسے اپنے قریب نہیں آنے دینا چاہتی۔ (’قریب‘ کا مطلب جانتے ہو ناں چھوٹے بچے؟) اور یہی مسئلہ ہمارے درمیان رنجیدگی کا باعث بنتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہماری لڑائی ہوگئی اور میں جتنی دکھی ہوں وہ اتنا ہی کم متاثر ہوا ہے۔ وہ بہت ہینڈسم ہے۔ (کیا تم جل گئے ہو؟)


تصویروں کا شکریہ۔ تمہارے چہرے پر بہت بشاشت ہے۔ تمہاری آنکھیں اتنی زندہ ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پتہ نہیں ایک ساکن تصویر پر وہ اتنی زندہ کیوں لگ رہی ہیں۔ تمہاری بہنیں بھی خوبصورت ہیں۔ ان کے گالوں کی ہڈیاں بے پناہ متاثر کرتی ہیں اور جبڑوں کی لائن بہت پرفیکٹ ہے۔ مجھے تراشیدہ ساخت کے چہرے اچھے لگتے ہیں۔


کیا مطلب ہے تمہارا کہ میں صرف اس لیے شادی کرنا چاہتی ہوں کیونکہ میں ان دنوں گندی گندی کتابیں پڑھ رہی ہوں؟ احمق ہو تم مستنصر ڈیئر۔ جب میں، یا میرا خیال ہے کوئی بھی لڑکی شادی کے بارے میں سوچتی ہے تو اس میں صرف محبت، استحکام اور اپنا گھر بنانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ تم لڑکے شادی کو صرف جنس کے ساتھ کیوں نتھی کر دیتے ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک لڑکے کا دماغ کس طرح لڑکی کی نسبت مختلف سطح پر سوچتا ہے۔ واقعی میں نے کوئی جنسی بات نہیں سوچی تھی۔ ویسے مستنصر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ہی چھت کے نیچے میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کس طرح زندگی گزار سکوں گی جس سے میں محبت نہیں کرتی کیونکہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، میری شادی تو ماں باپ کی مرضی سے ہی ہوگی۔ تم کس طرح ایک اجنبی شخص کے ساتھ جسمانی ربط قائم کر سکتے ہو؟ کیا سمجھتے ہو کہ میری سوچ احمقانہ ہے؟ شاید ان سردیوں میں میری شادی ہو جائے۔ ہو سکتا ہے شاید۔ لیکن جب بھی میری شادی ہوگی میں تمہاری دوست رہنا چاہتی ہوں۔ (وہ خط یقیناً مختصر ہوں گے یہ پہلے سے بتا دوں) اور اگر تمہاری شادی ہو جائے تو؟ کیا تم مجھے لکھتے رہوگے؟ مجھ سے وعدہ کرو کہ تم لکھو گے۔


تم واقعی فنون لطیفہ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔ مجھے بھی دلچسپی تو ہے، مگر مارڈن آرٹ میرے پلے نہیں پڑتا۔ ایک مرتبہ مجھے مونالیزا کے بارے میں ایک مضمون لکھنا پڑا تھا جس میں اس کی مسکراہٹ کے بارے میں تشبیہات کی ایک طویل فہرست تھی۔ پیرس کی ایک لڑکی نے کہا تھا، ’’یہ نسوانی منافقت سے بھرپور ایک مسکراہٹ ہے۔ میں اسی طرح اپنے خاوند کے سامنے مسکراتی ہوں۔‘‘ ویسے مجھے تو یہ مسکراہٹ لگتی ہی نہیں۔ ہونٹوں کا کرو بہت چھوٹا ہے۔ کیا تم نے یہ تصویر دیکھی ہے؟


اردو شاعری یقیناً خوبصورت ہوگی کیونکہ یہ زبان بھی تو خوبصورت ہے۔ شاعری پڑھنا میرے لیے سکون کا باعث بنتا ہے۔ مجھے ٹیگور، عمر خیام اور خلیل جبران پسند ہیں۔ ٹیگور ننھے منے پھولوں اور خدا کی عظمت پر نظمیں لکھتا ہے۔ میں نے خلیل جبران کی ’’سرکش روحیں‘‘ پچھلے دنوں پڑھی تھی۔ ہمارے کالج میں تین مسلمان لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے ایک ہمانجیب میری دوست ہے، اس نے مجھے اردو سکھانے کی کوشش کی تو میں نے تمہارا نام لکھنا چاہا۔ بہت مشکل تھا۔ وہ میرے ساتھ اردو بولتی ہے یعنی صبح بخیر اور شام بخیر اردو میں ہی کہتی ہے۔


اچھا تو تم اپنے گھر میں پنجابی بولتے ہو؟ مجھے بہت حیرت ہوئی۔ کیا تم اسے لکھ بھی لیتے ہو؟ دہلی میں ایک نئی ڈسکوتھیک کھلی ہے۔ سنا ہے کہ وہ ’سیلز‘ سے بھی زیادہ پاگل اور پرشور جگہ ہے۔ کمال ہے۔ مجھے یقین تھا کہ ’سیلز‘ سے بڑھ کر کوئی اور جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ کبھی نہ کبھی میں ضرور لاہور آؤں گی اور ہم دونوں وہاں کسی ڈسکوتھیک میں جائیں گے۔ ٹھیک ہے؟ تمہیں پتہ ہے راہباؤں کا خیال ہے کہ میں خوفناک حد تک بری لڑکی ہوں کیونکہ لڑکے میرے دوست ہیں اور میں ان کے ہمراہ پارٹیوں میں جاتی ہوں۔ بھلا جو کچھ میں دہلی میں کرتی ہوں اس سے ان کا تعلق؟ تمہارا کیا خیال ہے؟


ڈل اتنا خوبصورت ہے۔ ہندوستانی کے خوبصورت ترین پہاڑی مقامات میں سے ایک، لیکن مجھے پسند نہیں۔ ڈل ہوزی بہت ہی ڈل ہے۔ ڈل۔ ڈل۔ اوہو چودہ صفحے ہوگئے۔ مستنصر! میں نے خط لکھنے کی بجائے ایک کتاب لکھ دی ہے۔ لفافہ بہت بھاری ہو جائے گا اور میں اتنی سردی میں مزید ٹکٹوں کے لیے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔ پیار!
پریم


کتنی احمقانہ دھمکی کہ میرا جی چاہتا ہے میں تم سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑلوں اور کبھی نہ لکھوں! محبت کتنی خوفناک ہوتی ہے۔ پریم کے ان الفاظ کی سچائی کا ثبوت مجھے بہت برس بعد ملا، لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ ایک اجنبی کو مالک بنا کر، تمام تر طاقت اس کے ہاتھ میں دے کر دکھ دینے کی، خوش کرنے کی، اداس کرنے کی طاقت۔ مجھے زندگی میں پہلی بار سکون ملا۔


سیکرڈ ہارٹ کالج
ڈلہوزی
۲۲مارچ۶۹ء


مستنصر!
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں غصے سے پھٹ پڑوں، کم سے کم روٹھ جاؤں یا یہ تحریری تعلق ہمیشہ کے لیے توڑ دوں۔ میں نے تمہیں سردیوں میں اتنے خط لکھے، ایک پوسٹ کارڈ بھی، مگر تم بالکل خاموش رہے۔ پہلے مجھے شک ہوا کہ میرے خطوط ڈاک کی ہڑتال میں کھو گئے ہیں مگر جو خط میں نے دوسروں کو لکھے وہ تو ری ڈائرکٹ ہو کر مجھے واپس مل گئے، تمہارے نہیں ملے، اس کا مطلب ہے وہ تمہیں ملے، مستنصر کیوں نہیں لکھتے مجھے۔


آج ہفتہ ہے۔ میری چھٹی کا دن، اور قدرتی طور پر موسم کو آج ہی بکواس ہو جانا تھا۔ جس روز میں کھڑکی سے باہر دیکھوں اور مجھے دھند اور بارش نظر آئے تو مجھے فوراً علم ہو جاتا ہے کہ یہ میری چھٹی کا دن ہی ہوگا۔ میں باہر نہیں جا سکتی اور ساری شام اکیلی بیٹھی رہتی ہوں۔ سکول کی بچی کی طرح، اکیلی اور اداس۔


دہلی میں چھٹیاں بہت مزے سے گزریں۔ پچھلے ماہ وہاں ایک کار ریلی ہوئی۔ ہم سب ایک جیپ میں سوار ہو کر ساتھ گئے، جسے بادل نے تیز ہوا کی طرح چلایا۔ وہ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑا جا رہا تھا۔ اس کے اتنے حادثے ہو چکے ہیں کہ اگر ایک اور ہو جاتا تو کسی کو حیرت نہ ہوتی۔ ہم دہلی سے تیس میل کے فاصلے پر ایک گاؤں سومنا میں گئے۔ اتنی خوبصورت اور چھوٹی سی جگہ جس کے گرد پتھریلی پہاڑیاں ہیں۔ ہم تمام کاروں سے پہلے پہنچ گئے۔ سارا دہلی وہاں آیا ہوا تھا۔ ہم نے لنچ کیا اور سینڈوچ اور بیئر کے ڈبے ساتھ رکھ لیے۔ شام کو ہم دہلی لوٹے، بدقستی سے۔۔۔ نہیں جیت سکی۔ واقعی یہ ہٹلر کی ذاتی کار ہے۔ اس نے مہاراجہ پٹیالہ کو تحفہ میں دی اور موجودہ مہاراجہ نے امبر، بادل اور چیکو کے باپ ساقی کے آگے فروخت کردی۔


مقابلے میں دوڑنے والی تمام کاریں چارمنگ تھیں۔ مجھے ایک بھی مل جاتی اور ہاں میں نے ہولی بھی زبردست منائی۔ صبح سویرے لڑکے مجھے لینے آگئے اور پھر ہم نے باقی لوگوں کو ان کے گھروں سے پک کیا۔ راستے میں ہم نے ہرشخص پر رنگ پھینکا اور بالکل جنگلی بن گئے۔ جیپ میں اتنے لوگ تھے کہ ایک انچ بھی جگہ خالی نہیں تھی۔ کنی اور ونود بانٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور سوفی کا صرف ایک پاؤں جیپ کے اندر تھا۔ ہم جمہوریہ مصر کے سفارت خانے کے اندر چلے گئے۔ مصری سفیر اور ان کے بیوی بچے بے حد حیران ہوئے کہ انہوں نے ایسا شاندار میلہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ انہوں نے ہماری بے شمار تصویریں اتاریں۔ اور ان کے بیٹوں نے ہمارے ساتھ۔ ہم پچھلے پہر گھر لوٹے، جہاں میں نے اپنے جسم سے رنگ اتارنے کی ناکام کوشش کی۔ رات کو ہم ’طبیلہ‘ چلے گئے جو ایک نئی ڈسکو تھیک ہے اور میری پسندیدہ۔ اسے ایک اصطبل کی طرح سجایا گیا ہے۔ ہفتے کی شب کو وہاں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ ہمیں میزوں پر چڑھ کر ناچنا پڑتا ہے۔ اوہ کتنا لطف آیا ان سردیوں میں۔ باقی بعد میں بتاؤں گی۔


چیکو سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ ان دنوں براؤلی میں کام کر رہا ہے۔ ایک پارٹی میں ہماری زبردست لڑائی ہوگئی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں راستے کی دھول نہیں ہوں اور وہ میرے ساتھ دھول ایسا سلوک نہیں کر سکتا۔ وہ ایک دم بہت اپ سیٹ ہوا اور پھر بے حد ناراض، بعد میں ٹھیک ہو گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتا، کیونکہ اسے ابھی ٹھیک طرح سے معلوم نہیں کہ وہ زندگی میں کیا چاہتا ہے۔ اس شام جب میں واپس آئی تو وہ ’طبیلہ‘ میں گیا اور میرے بھائی اندرجیت کو کہنے لگا، میں پریم سے شادی کر رہا ہوں۔ جانے کیوں؟ اندرجیت بے حد غصے میں ہے۔ وہ اس حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے چیکو سے محبت ہے۔ اس نے مجھے ایک طویل لیکچر دیا اور کہا کہ میں چیکو سے شادی نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ صرف ایک پلے بوائے ہے۔ میری چچی کو بھی پتہ چل گیا ہے اور وہ بھی یہی کہتی ہے۔ میں بے حد اپ سیٹ ہوں۔ اس شام کے بعد میں چیکو سے نہیں ملی، چنانچہ کچھ بھی طے نہیں ہوا۔


اگر آئندہ سردیوں میں وہ میرے خاندان کی مرضی کے بغیر مجھے قبول کرنے کو تیار ہو گیا تو میں اس کے ساتھ شادی کر لوں گی۔ فی الحال میں ذہنی طور پر منتشر ہوں۔ مجھے تو چیکو کا بھی پتہ نہیں کہ وہ میرے بارے میں سچ مچ کیا محسوس کرتا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ اگر میں نے اس کے ساتھ شادی کر لی تو وہ مجھے بہت دکھی کر سکتا ہے، اگر وہ چاہے تو۔ لیکن وہ میری کمزوری بن چکا ہے اور جانتا ہے۔ امبر کے بچہ ہونے والا ہے اور ناز کے ہاں بھی۔ مئی میں شاید۔ وہ اپنی ماں کے پاس چلی گئی ہے اور اس کے خاوند بادل کا برا حال ہے۔


بادل، سگھند اور بوٹا کا بڑا زبردست حادثہ ہو گیا ان سردیوں میں۔ اگلے روز سگھند کی شادی تھی۔ یہ تینوں بہت ہی بلند قسم کے نشے میں مست سڑک کے درمیان میں پوری رفتار سے گاڑی چلا رہے تھے۔ چنانچہ ایک گول چکر کے گرد جانے کی بجائے سیدھے گئے اور بڑا سارا دھماکہ کر دیا۔ بادل کی انگلیاں ٹوٹ گئیں اور ایک دانت آدھا رہ گیا۔ وہ کمبخت اتنا مغرور ہے کہ بجائے اس کے کہ زندگی بچ جانے پر شکر کرے الٹا فکر آ رہا ہے کہ اب میں مسکراؤں گا تو میرا دانت آدھا دکھائی دے گا۔ خوش قسمتی سے سگھند کو زیادہ چوٹ نہیں لگی۔ پھر بھی شادی کی تصویروں میں اس کا چہرہ قدرے پھولا ہوا ہے۔ مجھے اس کی بیوی بالکل اچھی نہیں لگتی۔ کینہ پرور سی ہے۔ اب ختم کروں! پلیز جلد لکھنا۔ کیا اب تم خوش ہو؟
پریم


دوستا وسکی کو جب میں نے پہلی مرتبہ پڑھا تو ناول کے ابتدائی سو ڈیڑھ سو صفحے تو مجھے باقاعدہ نگلنے پڑے۔ شہروں اور قصبوں کی ایک ایک اینٹ کی تفصیل۔ بے شمار کردارجو ایک ایک کر کے تحریر میں سے ابھرتے اور پھر ان کا نام و نشان تک نہ ملتا۔ پھر آہستہ آہستہ جب میں اس ماحول کا ایک حصہ بن گیا، ان کرداروں کی مرغوب خوراک، ان کے جذبوں، نفسیاتی الجھنوں، نشست و برخاست کے طور طریقوں اور محرومیوں سے واقف ہوا تو پھر دوستا وسکی کی داستان گوئی نے مجھے نگل لیا۔ ناول کے اختتام پر ایک جھلاہٹ کی سی کیفیت طاری ہوگئی کہ یہ کردار تو بدن رکھتے تھے، جیتے جاگتے تھے۔ پھر ختم کیوں ہوگئے، صرف کاغذوں میں مقید کیوں ہیں۔ میرے چار چفیرے ہمیشہ کے لیے سانس کیوں نہیں لیتے، وہ چلے کیوں گئے۔ پریم کے اولین خط بھی ایسے ہی تھے۔


اس کے دوست، اس کی سہیلیاں کسی فقرے، کسی نفرت کے اظہار، کسی پیار کے بول میں سے جھانک کر چلے جاتے اور پھر آہستہ آہستہ ماہیپ، امبر، بادل، چیکو، اندرجیت، ونود، سگھند لفظوں کے لبادے چاک کرکے میرے آس پاس پھیل گئے جیسے اکیسویں روز انڈے کے باریک چھلکے کو چونچ مار کر چوزہ دھیرے دھیرے باہر آتا ہے اور آپ کو حیرت سے دیکھنے لگتاہے۔ میں ایک نظر نہ آنے والے انسان کی طرح ان لوگوں کی پارٹیوں اور کاردوڑوں، محبتوں اور مایوسیوں میں شامل ہوگیا۔ پریم مجھے لاہور کی گرمیوں میں سے نکال کر ڈلہوزی کی خنک بارشوں اور دہلی کے ہڑبونگ مچاتے ہجوم میں لے جاتی۔ میں حساب لگاتا رہتا کہ ناز کے ہاں بچہ کب ہوگا، پریم کے امتحانوں کے بارے میں فکر مند رہتا۔ میں ہٹلرکی کار کی پچھلی نشست پر پریم کے ساتھ بیٹھا ہوتا اور خوف زدہ رہتا کہ بادل کی تیز رفتاری کی وجہ سے حادثہ نہ ہوجائے۔ چیکو اور پریم ’’طبیلہ‘‘ کی میزوں پر چڑھ کر میرے سامنے رقص کرتے اور سرودے بوٹے ایسی پریم ہولی کے دن مجھ پر رنگ پھینکتی۔ اس کاہر خط پینڈورا کے بکس کی مانند ہوتا جسے کھولتے ہی مختلف کردار اچھل کر باہر نکلتے اور میرے سامنے پتلیوں کی طرح رقص کرنے لگتے۔ مگر پریم ان سے الگ رہتی، ہمیشہ ایک فاصلے پر چپ چپ اور میری دسترس سے باہر، خاموش! خط ختم ہوتا تو یہ کردار اپنے لباس سمیٹتے ہوئے دوبارہ بکس میں گھس جاتے۔


ڈلہوزی
۱۸؍اپریل ۶۹ء


پیارے مستنصر!
ابھی تک مجھے نہیں لکھا تم نے! کیا تمہیں میرا آخری خط نہیں ملا؟ خدا کرے مل گیا ہو کیونکہ وہ باقاعدہ ایک اخبار تھا۔ اتنے عرصے سے تمہاری خبر نہیں آئی اور میں بہت اداس ہوں۔
تمہاری پریم


مجھے اس کا خط مل گیا تھا مگر وہ آخری نہیں تھا۔ آخری خط آیا مگر بہت بعد میں۔


۵اگست ۶۹ء
میرے پیارے مستنصر!


مجھے تمہارے دونوں خط تو مل گئے مگر پہلے میں تمہاری تصویر موجود نہ تھی۔ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو بیہودہ پوسٹل سسٹم ہے اس کی گڑبڑ ہے۔ تصویر واقعی بھیجی تھی یا ذہنی طور پر غیر حاضر تھے؟ آج چھٹی ہے اور اس وقت اگرچہ مجھے فرانسیسی پڑھنی چاہیے مگر فرانسیسی گئی بھاڑ میں، میں تمہیں خط لکھنا چاہتی ہوں۔


مستنصر میں کیا کروں؟ میرے گھروالے میری شادی اسی لڑکے سے طے کر رہے ہیں، میں جانتی ہوں کہ وہ ایک اچھا لڑکا ہے اور اس کی آمدنی بھی معقول ہے۔ مگر یہ کوئی وجہ نہیں کہ میں اس کے ساتھ شادی کرلوں۔ نہیں کرنا چاہتی میں شادی اس کے ساتھ! اگر میں نے اس کے ساتھ شادی کرلی تو مجھے کبھی خوشی نصیب نہ ہوگی اور نہ ہی میں اسے خوشی دے سکوں گی۔ مگر اس کادوسرا پہلو یہ ہے کہ آخر میں کتنی دیر تک اس انتظار میں بیٹھی رہوں کہ چیکو کوئی فیصلہ کرے اور میں اس کے ساتھ شادی کروں اور اگر ہماری شادی ہو بھی جائے تو بھی مجھے توقع نہیں کہ چیکو مجھے خوشی دے سکے گا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تین چار برسوں کے بعد پھر لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کرنے لگے گا۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے گا۔ اب بھی کبھی کبھار وہ جان بوجھ کر مجھے دکھ دیتا ہے اور اگلے روز مجھے اتنا پیار کرتا ہے کہ میں سب کچھ بھول جاتی ہوں۔ میں سوچنے کے قابل نہیں رہی کہ میں کیا کروں۔


تم ہی بتاؤ مستنصر، تمہارا کیا خیال ہے؟ سب کچھ جانتے ہوئے بھی چیکو کے ساتھ شادی کرلوں یا ایک طے شدہ شادی قبول کرلوں۔ میں اتنی زیادہ اپ سیٹ ہوں مستنصر۔ ایک لمحے میں اس کے ساتھ شادی کرنے کا رسک لینے پر تیار ہوں، اور دوسرے لمحے میں کانپ کر کہتی ہوں کہ نہیں اسے بھول جانا چاہیے۔ مگر میں اسے نہیں بھول سکتی۔ میں اسے پچھلے پانچ برس سے پیار کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا خاندان بالکل بکھر چکا ہے۔ والدین میں طلاق ہو چکی ہے اور انہوں نے دوبارہ شادی کرلی ہے، اور ہاں! اس کا بڑا بھائی بادل یا تو صرف فلرٹ کر رہا ہے اور یا پھر واقعی مجھ سے محبت کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری بات ہے۔ اگر میں چیکو سے شادی کرلوں تو بادل مجھ سے فلرٹ کرے گا تو پھر میں کیا کروں گی۔ میری مدد کرو مستنصر! میں اتنی ناخوش ہوں۔


خیر ان سردیوں میں میں نے خوب لطف اٹھایا۔ میں چند بہت اچھے لڑکوں کے ہمراہ باہر گئی۔ ہم ہمیشہ ایک ہجوم کی صورت میں گھر سے نکلتے تھے۔ سونی، گوگی، گلوگی، اور ونود بے حد شریف اور تہذیب یافتہ لڑکے تھے۔ مجھے اتنا اچھا لگا تھا ناں کہ انسان چیکو، بادل اور بوٹا کے بعد اتنے خوش اخلاق لڑکوں کے ساتھ باہر جائے۔ (ان لڑکوں نے کبھی کسی لڑکی کے لیے دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں کی۔ درندے)


کیا میں نے تمہیں اپنی کزن کنی کے بارے میں بتایا تھا؟ اس کی ماں آسٹریلین ہے۔ ہم تب سے دوست ہیں جب ہم ننھی منی بچیاں تھیں۔ دہلی میں جب کبھی کسی پارٹی سے واپسی ہوتی تو میں اسی کے گھر سوتی تھی۔ بلکہ صبح ۴ بجے تک ہم گپیں مارتی تھیں۔ ایک مرتبہ اس کے والدین دہلی سے باہر گئے تو پورے ایک ہفتے کے لیے ان کا فلیٹ اور کار ہمارے قبضے میں رہے اور ہم نے خوب عیش کی۔ وہ اگست میں پیرس جا رہی ہے اور میں اسے بہت مس کروں گی اور وہاں میں تین آسٹریلین لڑکیوں سے بھی ملی تھی۔ بس وہ تو یونک تھیں۔ دو ہفتوں کے لیے انڈیا آئیں اور ڈھائی برس براجمان رہیں۔


یاسمین کا قد پانچ فٹ آٹھ انچ، میلیزا پانچ فٹ گیارہ انچ اور لیزا چھ فٹ دو انچ کی تھی (وہاؤ) وہ بڑی زبردست چیزیں تھیں۔ پارٹیوں پر اتنے پاگل کپڑے پہن کر آجاتی تھیں کہ کیا بتاؤں۔ ہر وقت پھڑکتی رہتی تھیں۔ اور جب لڑکے سست پڑ جاتے تھے تب بھی اکیلی ناچتی رہتی تھیں۔ ہر شب کو وہ ایک نئے لڑکے کے ساتھ باہر جاتیں اور اسی کے ساتھ سوجاتیں۔ اخلاقیات کے بارے میں وہ بالکل ان پڑھ تھیں۔ ہندوستانی لڑکیاں تو گنگ تھیں ان کی یہ حرکتیں دیکھ کر۔ میلیزا گوگی کے ساتھ اور یاسمین اندر کے ہمراہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ دیکھی جاتی تھیں۔ دوسرے لڑکوں کے علاوہ۔ حد یہ ہے گلوگی میلیزا کو نام کی بجائے ’’وائف‘‘ کہہ کر پکارتا تھا۔ بالآخر وہ یہاں سے چلی گئیں، لنڈن کے لیے براستہ لاہور۔ تم سے ملیں؟ میں نے انہیں پتہ دیا تھا۔


تم تو اتنی مشکل مشکل کتابیں پڑھتے ہو کہ میں نے تو ان کے نام تک نہیں سنے۔ تم سپین کے بارے میں اتنا کیوں پڑھتے ہو؟ تم سیاحت پر جانے کا سوچ رہے ہو۔ میرا جی چاہتا ہے تمہارے ساتھ چلی جاؤں سپین وغیرہ۔ میں نے پاکستان تو ضرور آنا ہے کبھی نہ کبھی۔ میری شدید خواہش ہے کہ تم سے ملوں۔ تم سے ملنا کتنا عجیب لگے گا۔ کیا ہم اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے سے ملیں گے؟


میرے امتحان دوہفتے تک شروع ہو رہے ہیں اور جب تک یہ ختم نہ ہو جائیں، میں تمہیں طویل خط لکھنے سے پرہیز کروں گی۔ لیکن تم ضرور باقاعدگی سے لکھتے رہنا۔ اندر، کنی، ماریا اور سونی یہاں آرہے ہیں امتحانوں کے بعد۔ میرا خیال ہے اب مجھے ختم کرنا ہی ہوگا۔ میرے ارد گرد لڑکیوں کا ایک غول ہے جو مجھے تنگ کر رہی ہیں کہ تمہارا مستنصر بالکل فیڈ اپ ہو جائے گا اتنا طویل خط پڑھتے پڑھتے، سچ بتاؤ کیا تم ہوئے؟ پلیز جلدی لکھنا۔
تمہاری زبردست فین، پریم!


کتنا احمقانہ خوف کہ مجھے کبھی خوشی نصیب نہ ہوگی۔


اور تم سپین کے بارے میں اتنا کچھ کیوں پڑھتے ہو؟


اور ہاں اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی پاکستان ضرور آئے گی۔ کب؟
۶۹۔ ۱۔ ۸


ہیلو اجنبی!
کیوں جناب آج کس سلسلے میں مجھے خط سے نوازا گیا ہے؟ کتنی خوبصورت بات کہ تمہیں اتنے عرصے بعد میری یاد آئی اور سنو میں بہت غصے میں ہوں۔ تمہاری اس لاپروائی کی وجہ سے جنگلی بلی بنی ہوئی ہوں۔ اس وقت میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اپنا غصہ بیان کرنے کے لیے۔ مجھے چاہیے کہ میں کبھی تم کو نہ لکھوں، کبھی بھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمہاری اتنی لاپروائی کے باوجود میں تمہیں کیوں لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔ مجھے کہنا تو یہ چاہئے کہ ہم جانے کب ملے تھے۔ کیونکہ میری یادداشت بہت مختصر ہے اور میں تمہارا نام تک نہیں جانتی۔۔۔ لیکن در اصل میں کہوں گی یہ کہ میں نے تمہیں بہت مس کیا ہے، تمہیں اور تمہارے خطوں کو۔


اور مستنصر، پچھلے چند ماہ میرے لیے ایک بوجھ تھے اور مجھے علم نہ تھا کہ میں کیسے ان میں سے گزروں گی۔ اتنے چھوٹے سے پہاڑی قصبے میں اپنی عمر کا ایک برس بسر کرنا کتنا دشوار ہے۔ صرف لڑکیوں اور راہباؤں کی رفاقت میں۔ سچ پوچھو تو میں بہت اکتا گئی ہوں اور اب جب کہ گھر واپس جانے کا وقت قریب آ رہا ہے تو میں پھر سے وہی پرانی وحشی لڑکی بنتی جا رہی ہوں۔ میں بائیس نومبر کو دہلی جا رہی ہوں اور یہ تمہاری بہتری ہے کہ تم اس سے پہلے مجھے خط لکھ دو، ورنہ۔۔۔ پلیز لکھ دو۔


کنی اور الاپے آئے تھے پچھلے ماہ۔ گھر کی بے شمار خبریں ملیں مثلاً بادل اور ناز کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے اس کا نام ایک امریکی ریڈ انڈین قبیلے کے نام پر رکھا ہے یعنی شیان۔ کیا یہ الٹی میٹ نام نہیں؟ پتہ نہیں اس طرح کے نام کا اس کی آئندہ زندگی پر کیا اثر ہوگا۔ چند روز پہلے بادل اور ناز ایک پارٹی میں بہت بری طرح الجھ پڑے۔ بادل ذرا نشے میں تھا اور اس کو شک ہوا کہ ناز راجو کے ساتھ فلرٹ کر رہی ہے۔ اس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اتنے زور سے جھنجھوڑا کہ اس کا نیکلس ٹوٹ گیا اور تمام جواہرات فرش پر بکھر گئے۔ اس نے اسے مارا بھی۔ کتنی بری بات۔ امبر کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔ منی اور پالین کا بچہ پچھلے ماہ ہونا تھا۔ ابھی تک پتہ نہیں کیا ہوا، یا نہیں ہوا۔


اس وقت ’’لارا‘‘ کی تھیم بج رہی ہے اور مجھے منی یاد آرہا ہے کہ ایک مرتبہ جب میں اس کے ہمراہ رقص کر رہی تھی تو وہ غصہ دلا دینے کی حد تک مجھ سے فلرٹ کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو میں بے حد شاکڈ ہوئی مگر میں یہ نہیں کہوں گی کہ بعد میں اسے اِنجائے نہیں کیا۔ شاید اسی لیے وہ مجھ پر کچھ کچھ اثرانداز ہوجاتا ہے۔ بہت ہینڈسم ہے۔


کیا میں چیکو سے شادی نہیں کروں گی؟ چیکو، اس کے ساتھ شادی کرنا بہت فن ہوگا مگر ہم زیادہ دیر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ وہ فلرٹ بہت کرتا ہے اور میں جیلس بہت ہوتی ہوں۔ ان سردیوں میں میں اسے ایک فاصلے پر رکھوں گی۔ مجھے رکھنا ہوگا کیونکہ مجھے جلد ہی منگنی کروانا ہوگی۔ میں ایسے نازک مرحلے پر اس کے ساتھ جذباتی ہونا افورڈ نہیں کر سکتی۔ یعنی اس سے زیادہ جتنی کہ ہو چکی ہوں۔ ایک اور لڑکا ہے جس کے ساتھ میں شادی کر سکتی ہوں مگر وہ جاٹ نہیں ہے اور میرا باپ اسے ناپسند کرے گا۔ ہم کسی اور ذات میں شادی نہیں کر سکتے۔ (اور تم سکھ ہو نہیں سکتے) خیر مجھے تو فرق نہیں پڑتا چاہے لڑکا سکھ ہو یا نہ ہو لیکن مجھے داڑھیوں سے بہت وحشت ہوتی ہے۔ بالکل سیکسی نہیں ہوتیں۔


پچھلے ماہ ہم آؤٹنگ پر سرینگر گئے۔ یہ کشمیر سے میری پہلی ملاقات تھی جو فوراً ہی محبت میں بدل گئی۔ نشاط باغ کے قریب جھیل ڈل کے اختتام پرہم ایک گھر میں ٹھہرے۔ ہم گلمرگ اور پہلگام بھی گئے اور بہت سی شاپنگ کی۔ ایک روز سب لڑکیاں شکارے پرسوار ہوکر نگین جھیل تک گئیں۔ ہمیں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ لگا اور میں تمہیں بتانہیں سکتی کہ راستہ کتنا خوبصورت تھا۔ ہم شام کو واپس آئے تو جھیل ڈل غروب آفتاب کے بعد بالکل گلابی ہو رہی تھی۔ اس منظر نے مجھے چھوا کہیں پر۔ میرا جی چاہا کہ یہ لمحے کسی ایسے شخص کے ساتھ گزاروں جو میرے لیے اہم ہو۔ اور ہاں یہ زبردست موقع تھا سگرٹ پینے کا اورہ م نے بہت پئے اورہاں جس گھرانے میں ہم رہے وہ مسلمان تھا اور اب میں تمہارے طور طریقوں سے واقف ہوں۔ (کیا پتہ کب کیا ہوجائے) میں کشمیر چھوڑ کر امتحانوں کے پاس نہیں آنا چاہتی تھی مگر آنا پڑا۔


ختم نہ کروں؟ بائیس نومبر سے پہلے لکھنا۔ خدا حافظ چھوٹے بچے۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔
تمہاری پریم


وہ پاکستان تو نہ آسکی مگر ہم نے ایک احمقانہ منصوبہ تیار کیا۔ اگر پریم دہلی سے بائی ایئر کابل چلی جائے اور میں بھی وہاں پہنچ جاؤں تو ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ چند روز اکٹھے گزار سکتے ہیں۔ پریم نے اس تجویز کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور باقاعدہ مجھ سے مشورے طلب کرنے لگی کہ جہاز سے اترتے ہوئے کون سا لباس پہنوں اور کیا تم مجھے پہچان لوگے وغیرہ وغیرہ۔ ایک روز جب میں افغان سفارت خانے کو ویزا فارمز کی فراہمی کے لیے خط لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا تو پریم کی ایک مختصر چٹھی آگئی۔


مستنصر!
میں نے کابل میں تم سے ملنے کے بارے میں پھر سوچا ہے۔ میں نہیں آسکتی۔ میں آنا چاہتی ہوں مگر نہیں آؤں گی۔ تمہارے خطوں نے مجھے موم کردیا ہے اور میں پگھلنا نہیں چاہتی، ہم دونوں کسی قسم کی گڑبڑ افورڈ نہیں کر سکتے۔ کیا تم سکھ ہونا افورڈ کرسکتے ہو۔ اور پھر چیکو بھی تو ہے۔ پیار!
پریم


اسی برس ایک مرتبہ پھر میرے بدن میں خیمہ زن آوارگی کے شیطان نے مجھے ورغلایا، میرے پاؤں کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ دیوانگی سفر کے موسموں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور میں اپنے چار چفیرے سے ناطا توڑ کر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وسط ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں دھکے کھاتا سپین میں وارد ہوا۔ سپین کی سیاحت کے اختتام پر میں نے علی کانت سے بارسلونا تک ساحلی سڑک پر سفر کیا۔ میری بس کے دائیں بائیں سپورٹس کاریں شرلاٹے بھرتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ بارسلونا ایک سانولا سلونا شہر ہے۔ پرکشش اور سمندری ہوا سے نمکین۔ اس کی سڑک ’’لارامبلا‘‘ پر صرف پھولوں کی دکانیں ہیں۔ شوخی رنگ اس قدر دہکتی ہوئی کہ جیسے بار سلونا میں آگ لگ گئی ہو۔ مجھے پریم کا خیال آگیا جسے میں نے وطن چھوڑنے سے پیشتر روانگی کی اطلاع بھی نہ دی تھی۔ میں نے ایک تصویری پوسٹ کارڈ خریدا اور ڈلہوزی کے پتے پر روانہ کردیا۔ پوسٹ کارڈ پرآتشی رنگوں کے سلگتے ہوئے پھول تھے اور ان کے درمیان لکھا تھا۔۔۔۔ ایک نارمل قسم کا پوسٹ کارڈ جو غیرملکوں میں چھٹیاں منانے والے لوگ وطن میں مشقت کرتے ہوئے دوستوں کو صرف جلانے کے لیے بھیجتے ہیں۔ صرف جلانے کے لیے۔


اسی دوپہر جب میں اپنی ڈاک وصول کرنے تھامس کک کے دفتر گیا تو دوستوں اور بھائی بہنوں کے خطوط میں ایک لفافہ ایسا بھی تھا جس پر ڈلہوزی کی مہر لگی تھی اور پریم کی تحریر تھی۔


ڈیئر مستنصر!
یہ مکمل درندگی کی انتہا ہے کہ تم مجھے بتائے بغیر پاکستان سے چلے گئے ہو۔ اتنی دور کہ مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ میں تمہیں کتنا مس کرتی ہوں۔ تم کب واپس آرہے ہو؟ جلدی آجاؤ۔ شاید میں بیوقوف ہوں یا شاید نہیں ہوں، اس لیے کہ تم لاہور میں ہو یا بارسلونا میں، مجھے تو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ مگر مجھے اطمینان جب ہی ہوگا جب تم واپس آجاؤگے۔ اور ہاں یہ تمہیں سپین سے اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ میں جلتی ہوں سپین سے۔ (اس لیے کہ یہ تمہیں پسند ہے۔) میں نے اپنے چھ خطوں کا جواب نہ پاکر تمہاری بہن شائستہ کو خط لکھا جس نے مجھے تمہارا بارسلونا کا پتہ بھیج دیا۔ بارسلونا کیسا شہر ہے؟ میں نے پہلی مرتبہ اس کا نام سنا ہے۔ پیار!
پریم


میں جلتی ہوں سپین سے۔


بارسلونا کیسا شہر ہے؟ میں نے پہلی مرتبہ اس کا نام سنا ہے۔


وطن واپسی پر لٹریچر کے لالچی کیکڑے نے اپنی ٹانگیں سفرناموں، افسانوں اور ناولوں کی صورت میں میرے بدن پر اس طرح لپیٹ دیں کہ میں پریم کے باقاعدہ خطوط کے جواب میں کبھی کبھار ہی قلم اٹھاتا۔ کچھ عرصے بعد اس نے ایک مختصر خط میں مجھے اطلاع کی کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ چیکو کے ساتھ یا اس لڑکے کے ساتھ جو کہ سکھ ہے اور جاٹ ہے اور اس کے والدین کی پسند ہے۔ میں نے اسے مبارکباد کا ایک کارڈ روانہ کردیا۔ پھر وہ خاموش سی ہوگئی۔ میں تو غافل تھا ہی۔ میں نے اس کی تحریر کو مس نہیں کیا۔


ایک روز ارشد میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا، ’’پریم کیسی ہے؟‘‘ تو مجھے یاد آیا کہ اس کا آخری خط آئے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا۔ میں نے اسی وقت اپنے تئیں ایک نہایت چبھتا ہوا خط لکھا کہ میرانام یہ ہے اور پتہ یہ ہے اور ہم کسی زمانے میں دوست ہوا کرتے تھے۔ وہ خاموش رہی۔ دوبرس اور بیت گئے۔


۱۹۷۵ء میں میرے پاؤں کے تلوے پھر آبلوں کے لیے ترسنے لگے۔ میں نے گھر والوں کی منت سماجت کر کے آخری مرتبہ سفر پر جانے کے لیے اجازت مانگی۔ خیر اجازت تو نہیں مانگی یک طرفہ طور پر فیصلہ دے دیا کہ میں جارہا ہوں، امید ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گے۔ روانہ ہونے سے پیشتر میرا جی چاہا کہ میں پچھلی مرتبہ کی تلافی کروں اور پریم کو روانگی کی اطلاع کر دوں۔ میں نے اسے لکھا کہ میں سفر پر جا رہا ہوں مگر فکر نہ کرو اس مرتبہ سپین نہیں جا رہا جس کے نام سے تم جل جاتی ہو۔ اور اگر تمہاری شادی ہوچکی ہے اور تم نے بہت سارے بچے پیدا کرلیے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجھے خط بھی نہ لکھو۔ تم نے خود ہی تو وعدہ کیا تھا کہ شادی کے بعد بھی ہم دوست رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔


برگمان کی ایک فلم تھی ’’دی سیلونتھ سیل۔‘‘ ایک نائٹ صلیبی جنگوں سے واپس آرہا ہے، وطن کی جانب۔ ایک تپتی اور سنسان دوپہر میں وہ کھیتوں کے درمیان بنی پگڈنڈی پر چل رہا ہے، جو کی بالیاں گرمی کی شدت سے سنہری ہو کر چار چفیرے سنسنا رہی ہیں، صرف یہی سنسناہٹ ہے، صرف وہی نائٹ ہے، اور کوئی آواز نہیں، اور کوئی بشر نہیں، نائٹ دیکھتا ہے کہ دور کھیتوں کے درمیان ایک زرد روسیاہ پیکر کھڑا ہے۔


’’میں موت ہوں۔‘‘ قریب آتا ہوا سیاہ پیکر کہتا ہے، ’’او رمیں تمہاری جان لینے آیا ہوں خدائے ذوالجلال کے حکم سے۔‘‘ نائٹ اسے بحث میں الجھا لیتا ہے کہ میں نے مذہب کی خاطر وطن سے دور جاکر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا، اور جب کہ میری جلاوطنی ختم ہونے کو ہے خدا کو میری خدمات کا یہ صلہ نہیں دینا چاہیے۔ سیاہ پیکر کہتا ہے، ’’میں حکم کا تابع ہوں۔ بحث کی گنجائش نہیں۔‘‘ اس پر نائٹ جو کہ شطرنج کا ماہر ہے تجویز پیش کرتا ہے کہ آؤ ہم ہر شام شطرنج کی بازی لگاتے ہیں، اگر میں ہار جاؤں تو بیشک میری روح قبض کر لینا۔ سیاہ پیکر اپنی زرد مسکراہٹ کے ساتھ ہامی بھرلیتا ہے۔ ہر شام بازی لگتی ہے اور ہار جیت کافیصلہ نہیں ہوتا اور ہوسکتا بھی نہیں کہ نائٹ ایک ایسی چال چل چکا ہے کہ اب وہ شکست نہیں کھا سکتا۔


پھر ایک سفر ہے سنسان لینڈ سکیپ اور اجڑے ہوئے قصبوں اور تپتے ہوئے ویرانوں کا۔ نائٹ چل رہا ہے اور کچھ فاصلے پر سیاہ پیکر اس کے تعاقب میں۔ انسان چل رہا ہے اپنی ناقابل شکست چال کے تکبر میں اور کچھ فاصلے پر موت کہ وہ برحق ہے اس کے تعاقب میں۔ اور بالآخر۔۔۔ میرا سفر بھی کچھ کچھ اس نائٹ سے مشابہت رکھتا تھا۔ زرد روپیکر کے سیاہ سائے ہمہ وقت میرے تعاقب میں رہے، مجھے زیر تو نہ کرسکے مگر میرے تعاقب میں رہے۔ افغانستان، ایران، ترکی اور لبنان میں انہوں نے میرے لبادے کو گرفت میں لیا مگر میری خوش بختی نے ان کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ طاری کردی اور میں بچ نکلا۔ مگر سوئٹزرلینڈ میں۔۔۔ اس نکھرے ہوئے خطے پر ایک چمکیلی صبح کو میں نے اپنے چچا کو برمنگھم فون کیا تاکہ اپنی آمد کی پیشگی اطلاع کرسکوں۔ ان کی بیٹی نے فون اٹھایا۔


’’مستنصر بول رہا ہوں، سوئٹزرلینڈ سے۔۔۔‘‘


’’جی بھائی جان۔۔۔‘‘ صرف اتنا کہا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔


’’خالدہ۔۔۔ کیا بات ہے؟ خیر تو ہے؟‘‘


’’خیر نہیں ہے بھائی جان۔۔۔ ساجد بھائی شہید ہوگئے ہیں۔‘‘


کوئٹہ کی وہ صبح بھی ایسی ہوگی قدرے خنک اور چمکیلی جب کیپٹن ساجد نذیر نے اپنے فوجی جہاز کے پہیوں کو زمین کی گرفت سے علیحدہ کیا۔ چند سوگز اوپر جانے کے بعد زمین پر کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ جہاز واپس آرہا ہے اور پھر اس کا ڈھانچہ ان کے سامنے جل رہا تھا۔ ساجد کو جلتے ہوئے جہاز کو توڑ کر نکالا گیا تو وہ ہوش میں تھا۔ اس نے سٹریچر پر لیٹنے سے انکار کردیا اور خود چلتا ہوا اپنی جیپ تک گیا۔ جیپ کو ڈرائیو کر کے ہسپتال پہنچا۔ طویل سیڑھیاں طے کیں اور ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوکر کہنے لگا، ’’ڈاکٹر میں شدید درد محسوس کر رہا ہوں مجھے کوئی انجکشن لگادو۔‘‘ اس کے چوڑے کندھوں پر سجی خاکی وردی سلگ رہی تھی، سیاہ ہو رہی تھی۔ جسم کانوے فیصد حصہ جل چکا تھا۔ جلتے ہوئے جسم کو سب سے بڑا خطرہ سیپٹک ہو جانے کا ہوتا ہے۔ چنانچہ ساجد کے بستر کے گرد پالی تھین کا ایک خیمہ نصب کر دیا گیا۔


اس نے نرس سے کہا، ’’تمہیں پتہ ہے میں ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے باپ کا بھی کوئی بھائی نہیں۔ میری ماں لاہورمیں بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہے کہ میں اگلے ہفتے چھٹی پر جا رہا تھا۔ میں بالکل اکیلا ہوں۔ میرا کوئی سگا بھائی نہیں۔۔۔ ہاں خالہ زاد ہیں بہت سارے۔۔۔ میرے ایک بھائی جان ہیں جنہیں سیاحت کا جنون ہے۔۔۔ وہ ان دنوں یورپ گئے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ اور بالآخر۔۔۔ لانبے قد اور گھنگریالے بالوں والا میرا ساجد جس کی شرارتی آنکھیں اور ڈیشنگ شخصیت دیکھ کر مجھے زارِروس کی فوج کی گھڑسوار بے باک افسر یاد آ جاتے تھے، سیاہ پیکر کے آگے بازی ہار گیا۔ بازی میں نے لگائی تھی اور ہار ساجد گیا۔ زرد روپیکر نے اس کا ہاتھ تھاما اور ہم سے دور لے گیا۔


میں نے خواب آور دوائیوں کے بوجھ تلے دبے ایک مریض کی طرح یورپ اور ایشیا کی وسعتوں کو پار کیا تاکہ میں ساجد کے چالیسویں پر وطن پہنچ سکوں، اس کی مٹی پر گھاس اگنے سے پہلے میں ایک اجڑے ہوئے گھر میں داخل ہوا تو میرے والد زندگی میں پہلی بار میرے گلے لگ کر روئے۔ اس رات میری بیوی مجھے اس کے جانے کی، اس کے زمین میں اترنے کی تفصیلات بتاتی رہی اور ہم روتے رہے۔ دوسری صبح جب ہم چالیسویں میں شرکت کے لیے ٹرین میں ساجد کے گاؤں جا رہے تھے تو چپ بیٹھی ہوئی مونا نے ایک دم کہا، ’’وہ پریم بھی مرگئی ہے۔‘‘


’’کون سی پریم؟‘‘ میرے شل ہوتے ہوئے ذہن پر کوئی تصویر نہ ابھری۔


’’وہی آپ کی قلمی دوست۔۔۔ سکھ لڑکی۔‘‘


مگر میں اس وقت کچھ بھی سوچ نہ سکتا تھا۔۔۔ پریم مر گئی ہے تو کیا ہوا۔۔۔ کون سی پریم۔۔۔ پتہ نہیں کون سی پریم۔۔۔


پورے دو ماہ کے بعد جب ہم لوگ زیر زمین جانے والے کے لیے آنسوؤں کا ذخیرہ ختم کر چکے تو میں نے اپنی بیوی سے پوچھا، ’’اس روز ٹرین میں تم نے پریم کا ذکر کیا تھا۔‘‘ وہ اٹھی اور الماری کھول کر ایک خط مجھے تھما دیا۔


۲۳۔ بڑا کھمبہ روڈ۔ نیو دہلی۔


محترم مستنصر!
آج صبح کی ڈاک میں میری اکلوتی بہن پریم کے نام ایک خط تھا۔ میں نے وہ خط کھول لیا۔ کیونکہ پریم اسے نہیں کھول سکتی۔ وہ مرچکی ہے۔ لفافے پر اس کا نام دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ کون لاعلم شخص ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ وہ آج سے تین برس پہلے کی مر چکی ہے۔ میں نے اس کا نام دیکھ کر آج اپنی کھوئی ہوئی بہن کے لیے پھر سے آنسو بہائے۔ وہ اکثر آپ کا ذکر کرتی رہتی تھی۔ اس لیے میں مختصراً اس کے چلے جانے کا حوال لکھتا ہوں۔


شاید آپ کو معلوم ہو کہ اس کی منگنی ہوگئی تھی اور وہ چند ہفتوں تک بیاہی جانے والی تھی۔ شادی سے پیشتر وہ اور اس کا منگیتر شاپنگ کے لیے یورپ گئے۔ واپسی پر فرانس میں پریم نے ضد کی کہ وہ سپین دیکھے بغیر گھر نہیں لوٹے گی۔ وہ سپین گئے اور علی کانت سے بارسلونا جانے والی ساحلی سڑک پر ان کی تیز رفتار سپورٹس کار کا حادثہ ہو گیا۔ کار پریم چلا رہی تھی۔ وہ شدید زخمی ہوئی مگر اس کا منگیتر بچ گیا۔ نزدیک ترین ہسپتال بارسلونا میں تھا جہاں پریم کو داخل کروا دیا گیا۔ اس کی چند ہڈیاں ٹوٹی تھیں اور چہرے پر زخم آئے تھے۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ مسلسل طبی نگہداشت کے ساتھ چار پانچ ماہ میں چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اس کا منگیتر اس کے پاس ٹھہرا رہا مگر اسے کاروباری مصروفیت کی بنا پر چند ہفتوں کے لیے ہندوستان واپس آنا پڑا۔


ایک رات پریم سوئی ہوئی تھی کہ اسے خنکی کا احساس ہوا۔ وہ کچھ دیر تو پہلو بدلتی رہی مگر سردی کی کاٹ نے اسے اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ وہ کمرے میں نصب گیس ہیٹر کے پاس آئی اور اسے جلانے کے لیے ماچس کی تیلی روشن کی۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور اسی لمحے پریم کمرے کے درمیان کھڑی مشعل کی طرح جلنے لگی۔ وہ ایک دہشت زدہ جانور کی مانند گم سم وہیں کھڑی جلتی رہی اور بالآخر تکلیف کی شدت سے مجبور ہو کر چیخیں مارنے لگی۔ جب تک لوگ مدد کو آئے وہ جلتے جلتے سیاہ ہو چکی تھی۔ گیس ہیٹر میں خرابی تھی اور اس میں سے گیس لیک کرتی تھی۔ جب پریم ہیٹر جلانے کے لیے بستر سے اٹھی تو پورا کمرہ گیس سے بھرا ہوا تھا۔


جونہی مجھے یہ دہشت ناک خبر ملی میں فوراً بارسلونا روانہ ہو گیا۔ انہوں نے پریم کو پالی تھین کے بنے ہوئے ایک خیمے میں رکھا ہوا تھا (جلے ہوئے جسم کو سب سے بڑا خطرہ سیپٹک ہو جانے کا ہوتا ہے) اس کا جسم سیاہ پڑ چکا تھا۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میری بہن بہت لمبے قد کی تھی اور وہاں اس بستر پر پڑی، ماس کے تقریباً بغیر وہ بہت ہی بھیانک لگتی تھی مگر وہ بول سکتی تھی۔ اس کے خیمے میں ایک فون تھا اور دوسرا ادھر میرے قریب میز پر رکھا تھا۔ ہم پہروں ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے اور فون پر باتیں کرتے رہتے۔ اس نے آپ کے بارے میں بھی باتیں کیں (مستنصر نے مجھے بارسلونا سے۔۔۔ کا کارڈ بھی بھیجا تھا۔ میں یہاں آتو گئی مگر معلوم نہیں کہ کس حالت میں۔ وہ اس شہر میں گھومتا رہتا تھا۔ شاید ہسپتال کے اس کمرے کے نیچے سے بھی گزرا ہو۔


(مجھے پہلی بار بارسلونا کا نام تب معلوم ہوا جب میں نے اسے یہاں خط لکھا تھا۔) پریم شدید اذیت میں تھی مگر وہ مسکراتی رہتی تھی اور باتیں کرتی رہتی تھی۔ اس کے درجنوں آپریشن کیے گئے تاکہ جلے ہوئے حصوں پر سرجری کی جا سکے مگر دن بدن اس کا وزن کم ہوتا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ اس کے بستر پر لمبے قد کا ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گیا۔ مگر وہ بول سکتی تھی۔ انہی دنوں مجھے ایک اشد کاروباری ضروری کے تحت دو روز کے لیے دہلی واپس آنا پڑا، اور گھر پہنچتے ہی مجھے ہسپتال کی طرف سے تار ملا کہ پریم اسی رات مرگئی تھی۔ میں بارسلونا گیا اور اسے دہلی لے آیا۔ یہاں جیسا کہ ہم میں رواج ہے ہم نے اسے جلا دیا۔


میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو جڑواں بچے ہیں۔ میں کاروبار کے سلسلے میں زیادہ تر دہلی سے باہر رہتا ہوں۔ آپ پریم کے دوست تھے۔ اگر آپ مجھ سے رابطہ رکھیں تو میں شکرگزار ہوں گا۔ کبھی دہلی تشریف لائیں تو مجھے اور میری بیوی کو بے حد خوشی ہوگی۔
آپ کا
اندرجیت


پریم کی احمقانہ خواہش پوری ہوئی۔ آج اس کی موت کے چھ برس بعد وہ بائیس برس کی ہے۔ وہ بائیس برس کی ہی رہے گی۔ اس نے کہا تھا ناں کہ کاش انسان ہمیشہ ایک ہی عمر کا رہے۔