کیا آج کا استاد جدید دور کے تقاضے جانتا ہے؟
زندگی کے جو شعبے کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں تعلیم سر فہرست ہیں۔ اس وبا نے ہم پاکستانیوں کے جو پول کھولے ہیں ان میں ایک تعلیم کے شعبے میں حد درجہ نالائقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی سے بے بہرہ ہونا بھی شامل ہے۔آج کا نوجوان سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں جی رہا ہے اور کلاس روم میں لیکچر دینے والا استاد نوکیا 3310 کے دور کی باتیں کررہا ہے۔بقول قاسم علی شاہ سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا۔ ترقی یافتہ ممالک نظام تعلیم، نصاب اور ٹیچنگ میں نئے ٹرینڈز اور امکانات کو اپنارہے ہیں۔
اس لیے ضروت اس امر کی ہے ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلیں۔ قول ناصر کاظمی وقت اچھا بھی آئے گا ناصر/غم نہ کر زندگی پڑی ہے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے نئے سرے سے منصوبہ بندی کے لیے سرگرم اور فعال ہوجانا چاہیے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا تعلیم کے نظام میں کیا جدتیں (نئے ٹرینڈز)لارہی ہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں۔
نصاب میں کون سے نئے مضامین شامل کریں؟
کووڈ 19 کی وبا نے لائف سکلز،سماجی آداب و اخلاق، ذہنی و نفسیاتی صحت کی ضرورت اور اہمیت کو آشکار کردیا۔ اب دنیا میں تعلیمی نصاب میں کرائسس مینجمنٹ( بحران کے دوران معاشرتی اور ذاتی زندگی کو سنبھالنے کے آداب)،لائف سکلز اور ذہنی و نفسیاتی صحت سے متعلق درسی مواد شامل کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔
1۔ کرائسس مینجمنٹ: غیر معمولی اور ہنگامی حالات کی صورت میں خوداعتمادی،ہوش مندی اور دانش مندی سے حالات کا سامنا کرنا مثلاً متبادل حل تلاش کرنا،غصے پر قابو پانا،خود کو اور دوسروں کا تحفظ،استقامت ،ضروری اقدامات اور اشیا کا انتظام کرنا وغیرہ
2۔ سماجی اخلاقیات: زندگی گزارنے کے راہنما اصول وضوابط اور معاشرتی آداب،ثقافتی اقدار اور رویے۔یہ صرف نظری تعلیم تک محدود نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بچوں کو اس میں شامل کیا جائے جیسے رضاکارانہ سرگرمیاں،مریضوں کی عیادت،دوسروں کی مدد و راہنمائی کرنا،سماجی مسائل کی آگہی بارے مہم جوئی میں شمولیت وغیرہ
3۔ذہنی و نفسیاتی صحت: کووڈ 19 کی وبا نے سب سے زیادہ لوگوں کی ذہنی و نفساتی صحت کو متاثر کیا ہے۔تعلیمی نصاب میں اساتذہ کے لیے ہنگامی حالات یا کرائسس میں بچوں کی ذہنی و نفسیاتی صحت کی بحالی اور دیکھ بھال کے لیے راہنما اصول وضوابط اور سرگرمیاں شامل کی جائیں۔
4۔ سوفٹ سکلز: سوفٹ سکلز وہ مہارتیں جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جو بچہ اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی ابتدائی دس بارہ سال تعلیم کے نام پر صَرف کرتا ہے لیکن جب وہ کالج کی تعلیم یا عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو اس میں خود اعتمادی کی صلاحیت ہے نہ وہ تخلیقی و تنقیدی سوچ کا حامل بن سکا،نہ اس کو مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کا ہنر آتا ہے اور نہ وقت کی قدردانی اس کے پیش نظر ہے۔ یعنی وہ زندگی گزارنے کے ہنر سے ہی نابلد ہے۔ بڑے بڑے تجارتی ادارے اور کمپنیاں اپنے ملازمین کی قابلیت اور صلاحیت میں نکھار اور بہتری لانے کے لیے وقتاً فوقتاً تربیتی سیشن کا اہتمام کرتی رہتی ہیں۔ اگر یہی مہارتیں بچوں کو سکول سطح پر تعلیمی سرگرمیوں حصہ بنا دیا جائے تو عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ان مہارتوں کے دھنی بن چکے ہوں گے۔
سوفٹ سکلز میں فعال سماعت (ایکٹو لسننگ)،تنقیدی سوچ(کریٹیکل تھنکنگ)،نگرانی(مانیٹرنگ)،ٹائم مینجمنٹ،سماجی احساس،تحریری و تقریری قابلیت،فیصلہ سازی،مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کا ہنر،باہمی تعاون اور بول چال کی مہارتیں شامل ہیں۔
تعلیم میں ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیرہوگیا ہے
اکیسویں صدی کے آغاز سے ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکی تھی لیکن حالیہ برسوں بالخصوص کووڈ 19 کی وبا نے ٹیکنالوجی کے استعمال ،ضرورت،افادیت اور اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ٹیکنالوجی نے انسانی بقا اور تعلیمی سرگرمیوں کو کسی حد تک سہارا دیا۔ اس دوران اساتذہ اور طلبہ میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوا اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور ضرورت سے واقف ہوئے۔
اگر ارطغرل آج ہوتا تو کیا کرتا
ماضی کو یاد رکھنا اور اس سے سبق حاصل کرنا مستحسن بات ہے لیکن ماضی میں جینا بالکل قابل تحسین سوچ نہیں ہے۔ آج کل سلطنت عثمانیہ کی یاد دلاتے ٹی وی ڈرامے نوجوان نسل کو مبہوت کیے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے ارطغرل عثمان، ٹیپو سلطان کا دور، تیر تلوار کا دور تھا اورآج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اگر ہم بھی اپنے بچوں کو ارطغرل غازی جتنا بہادر بناناچاہتے ہیں تو ان کو ترغیب دلائیے کہ ٹیکنالوجی کا کوئی ایک شعبہ چن لیں اور اس میں مہارت حاصل کریں تو دنیا ان کے قدموں میں بیٹھی ہو گی۔
ہمارے ہاں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنس کی تعلیم صرف ذہین طلبہ کے لیے ہے۔ آرٹس کے طلبہ کو ٹیکنالوجی سے بھلا کیا تعلق،یاد رکھیے دورحاضر میں ٹیکنالوجی ہر انسان کی زندگی کا حصہ اور ضرورت بن چکی ہے۔سمارٹ فون نے تو ایک ناخواندہ کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ سکول سطح پر اساتذہ اور طلبہ کو ٹیکنالوجی سکلز سکھانے کا اہتمام کیا جائے اور اسے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ہم یہاں چند مفید ٹیکنالوجی سکلز کی نشاندہی کررہے ہیں جن کا سیکھنا طلبہ میں تعلیمی سرگرمیوں میں راہنما ثابت ہوں گی۔
1۔انٹرنیٹ سرچنگ: طلبہ کو انٹرنیٹ پر مطلوبہ مواد تلاش کرنے سے متعلق سکھانا زندگی بھر کام آنے والا ہنر ہے۔ گوگل پر سرچ کرنا بھی ایک آرٹ ہے۔اس سے تحقیق اور سوچ بچار میں بہتری آئے گی۔
2۔ آفس سکلز: طلبہ کو ڈاکومنٹس،پری زینٹیشن اور اینی میشن کے لیے بنیادی تعلیم لازمی ہونی چاہیے۔عموماً ہمارے کاروباری میدان میں ایم ایس آفس کا استعما ل کیا جاتا ہے لیکن دنیا میں گوگل ڈاکس،آئی ورکس،اوپن/لبرا آفس کا استعما بھی تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ سکول سطح پر ورڈ(ایم ایس ورڈ اب اردو لکھنے کے لیے بھی استعمال ہورہا ہے)،ایکسل، پاور پوائنٹ،ان پیج،وائٹ بورڈ اینی میشن وغیرہ مفید رہیں گے۔
3۔ ٹائپنگ: ہر سطح پر کام کرنے کے لیے ٹائپنگ سیکھنا بہت ضروری ہے۔ بچوں کو ابتدائی سطح پر ٹائپنگ سکلز سکھانی چاہیے۔اس وقت دنیا انگلیوں پر یعنی ٹائپنگ پر چل رہی ہے۔ یہ تحریر بھی ٹائپنگ کی بدولت آپ تک پہنچی ہے۔ انگریزی ٹائپنگ کے ساتھ اردو ٹائپنگ پر خصوصی توجہ دی جائے۔
4۔ سوشل میڈیا سکلز: سوشل میڈیا ایک حقیقت ہے آپ آج کی نسل کو اس سے دور نہیں رکھ سکتے ہیں۔نوجوان نسل اس کے سحر میں جکڑ چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگانا یا اس کے استعمال سے روکنا بالکل ممکن نہیں ہے۔اس لیے طلبہ کو اس کے مفید اور بہتر استعمال کی تربیت دیجیے۔سوشل میڈیا کے آداب اور سیفٹی کے طریقے سکھائیے کہ کس طرح سائبرکرائم،سائبرہراسمنٹ وغیرہ جیسی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
5۔ انٹرنیٹ سیکورٹی اینڈ سیفٹی: انٹرنیٹ کی ورچوئل ورلڈ میں خود کو محفوظ رکھنا،اینٹی وائرس،حد سے زیادہ ذاتی معلومات کی شیئرنگ،محفوظ انٹرنٹ سرفنگ وغیرہ بارے بچوں کو بتانا بہت ضروری ہے۔
6۔ہارڈ وئیر بیسک: ٹیکنالوجی گیجٹ اور ڈئوائسز بارے بنیادی معلومات جیسے پرنٹر ،پروجیکٹرکیسے کام کرتے ہیں،ٹربل شوٹنگ،وائی فائی کنیکشن وغیرہ کے بارے میں آگہی دی جائے۔
ان کے علاوہ ای میل /ڈیجیٹل کمیونی کیشن،ڈیجیٹل کیمرا/فوٹوگرافی،ویب سائٹ ڈیزائننگ،کمپیوٹر نیٹ ورکنگ،انسٹالنگ سوفٹ وئیرز اینڈ ایپ وغیرہ جیسی بنیادہ ٹیکنالوجی سکلز سکول سطح کے طلبہ کو لازمی سکھانی چاہیں۔