پوشاکوں کا تخت
" اب سردی بڑھ رہی ہے ۔ زائد کپڑے دے دیجیے ۔ انہیں تخت پر رکھ آؤں ۔ کسی کے کام آجائیں گے ۔"
میری زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ اہلیہ نے کہا :
" میں آپ کے تعاون کی محتاج نہیں ہوں ۔ میں نے پہلے ہی بھجوادیے ہیں ۔"
اہلیہ کا یہ روکھا جواب مجھے اچھا نہیں لگا ، لیکن پھر سوچا کہ انھوں نے میرا انتظار کیے بغیر بیٹے کے ذریعے کپڑے بھجوادیے تو اچھا ہی کیا ۔ میرے دل میں مواساۃ ، ہم دردی ، غم خواری اور دوسروں کی مدد کے ان کے جذبات کی قدر پیدا ہوئی ۔
لاک ڈاؤن کے زمانے میں کسی موقع پر مرکز جماعت اسلامی ہند سے متّصل ہوٹل ریور ویو کی بغل میں الیکٹرانکس کی دوکان 'عالم مارٹ' کے سامنے کسی شخص نے چند تخت جوڑ کر رکھ دیے تھے ۔ اطراف کے لوگ اپنے گھر سے ضرورت سے زائد کپڑے : پینٹ شرٹ ، قمیص ، شلوار ، دوپٹہ ، جیکٹ ، چادر ، بچوں کے کپڑے ، جوتے ، غرض مختلف ملبوسات وہاں رکھ جاتے ہیں اور ضرورت مند وہاں سے لے جاتے ہیں ۔ مہینوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ روزانہ مختلف اوقات میں عورتیں ، بچے اور مرد حضرات بھی ، جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں ، یہاں اپنی پسند کے کپڑے چھانٹتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہاں نہ کوئی چوکی دار رہتا ہے ، جو کچھ روک ٹوک کرے ، نہ کوئی پابندی ہے کہ کوئی ایک دو سے زیادہ کپڑے نہ لے جائے ۔ لینے والوں کو آزادی ہے کہ جس کو جتنے اور جیسے کپڑوں کی ضرورت ہو لے جائے ۔ میں مہینوں سے اس راستے سے گزرتا ہوں ۔ میں نے کبھی یہ تخت خالی نہیں دیکھا ۔
حدیث میں غریبوں ، محتاجوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، خاص طور پر کسی کو پہننے کے لیے کپڑے دینے کا بہت ثواب بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے : " جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے گا اللہ اسے جنّت کی سبز پوشاک پہنائے گا ۔" ( ابو داؤد : 1682) دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : "جو مسلمان کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے گا ، جب تک اس کے جسم پر وہ کپڑا رہے گا ، اس وقت تک دینے والا اللہ کی حفاظت میں رہے گا ۔" (ترمذی : 2484)
علماء نے لکھا ہے کہ ان حدیثوں میں مسلمان کا ذکر بس اس وجہ سے ہے کہ جس سماج میں ان باتوں کی تلقین کی گئی تھی اس کی غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی ، ورنہ یہی فضیلت عام انسانوں کی مدد کرنے اور انہیں پہننے کے لیے کپڑے دینے پر بھی حاصل ہوگی ۔
سردی کی آمد ہے ۔ کتنے انسان ہیں جن کے پاس اپنے تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں ، اوڑھنے کو چادر ، کمبل یا لحاف نہیں ، سردی سے بچاؤ کے لیے کوئی انتظام نہیں ۔ کتنا بڑا کارِ خیر ہوگا کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور انہیں مال و دولت اور اسبابِ عیش کی فراوانی حاصل ہے ، وہ آگے بڑھیں اور ایسے مفلوک الحال لوگوں کی خبر گیری کریں ۔ کتنا اچھا ہوگا کہ ہر بستی ، ہر شہر ، ہر گاؤں میں مختلف مقامات پر ایسے تخت رکھے جائیں ، جہاں لوگ اپنی ضرورت سے زائد کپڑے رکھ جائیں اور ضرورت مند وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق کپڑے لے جائیں ۔ اِس صورت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ نہ کپڑے دینے والوں کو کسی پر احسان جتانے کا موقع ملتا ہے نہ کپڑے لینے والوں کو احساسِ شرمندگی دامن گیر ہوتا ہے ۔