شاعری

درخت

دھوپ میں سایہ دار درخت لدے پھدے پھل دار درخت تازہ ان سے ہوا ملے جینے کا سب مزہ ملے

مزید پڑھیے

جنگل

ہرے بھرے یہ جنگل بن سارے پرانی کا مسکن اک دنیا آباد وہاں ہر کوئی آزاد وہاں

مزید پڑھیے

پہاڑ

بنجر ہیں پتھریلے ہیں اور کہیں برفیلے ہیں دل کش ہیں شاداب بھی ہیں خود میں سمیٹے خواب بھی ہیں

مزید پڑھیے

جھیل

درپن چاند ستاروں کا فطرت کے نظاروں کا گہری چنچل نیلی جھیل حد نظر تک پھیلی جھیل

مزید پڑھیے

میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا

میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا شعلے کا کیا قصور جو پتھر میں قید تھا جس کی تہوں میں خود ہی مچلتی ہیں آندھیاں میں خواہشوں کے ایسے سمندر میں قید تھا پھینکے ہے مجھ کو دور یہ گردش ہے کتنی تیز کن مشکلوں سے ذات کے محور میں قید تھا آتے ہیں سارے راستے مڑ کر یہیں شکیلؔ زنداں مرا یہی ...

مزید پڑھیے

کن حوالوں میں آ کے الجھا ہوں

کن حوالوں میں آ کے الجھا ہوں تیری آنکھوں میں خود کو پڑھتا ہوں کون مجھ میں ہے بر سر پیکار روز کس سے جہاد کرتا ہوں راہ مڑ مڑ کے لوٹ آتی ہے گھر سے جب بھی ذرا نکلتا ہوں رشتۂ دل کسی سے ٹوٹا ہے روز راہیں نئی بدلتا ہوں آنسوؤں سے ہوا کے آنچل پر کس ستم گر کا نام لکھتا ہوں

مزید پڑھیے

تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا

تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا انتشار ذات کا اک سلسلہ رہ جائے گا قربتیں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا چند یادوں کے سوا بس اور کیا رہ جائے گا یہ تغافل ایک دن اک سانحہ بن جائے گا عکس تو کھو جائے گا اور آئنہ رہ جائے گا وقت میں لمحہ سا میں تحلیل ہوتا جاؤں گا خالی آنکھوں ...

مزید پڑھیے

یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے

یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے سنہری دھوپ چھاؤں روشنی میں عکس کس کا ہے یہ ڈھلتی شام یہ قوس قزح کی رنگ آمیزی یہ نیلے آسماں کی دل کشی میں عکس کس کا ہے سہانی شب لئے آغوش میں خوابوں کی پریوں کو چمکتے دن کی اس افسوں گری میں عکس کس کا ہے انا کی سرکشی امید ارماں خواب کی ...

مزید پڑھیے

ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر

ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر کون ہے سیدؔ کرب جو اتنے جھیل رہا ہے میرے اندر اجڑی اجڑی خواب کی بستی صحرا صحرا آنکھیں میری جانے یہ طوفان کہاں سے آج اٹھا ہے میرے اندر خاموشی سے جھیل رہی ہے گرمی سردی ہر موسم کی مجبوری کی چادر اوڑھے ایک انا ہے میرے اندر آج نہ جانے کیوں ...

مزید پڑھیے

بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ

بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ حد سے بڑھے جب تشنہ لبی تو پھونک نہ دیں میخانے لوگ ہم دنیا کو دے کر خوشیاں غم بدلے میں لیتے ہیں ڈھونڈے سے بھی اب نہ ملیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ کیا جانیں یوں دل کے کتنے زخم ہرے ہو جاتے ہیں چھیڑ کے بات اک ہرجائی کی آتے ہیں سمجھانے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 11 سے 5858