جب بھی کرے یلغار افسردہ دلی
جب بھی کرے یلغار افسردہ دلی دے دل کو کچوکے کاہش بے ثمری کانوں میں ندائے حسبک اللہ آئے اور آ کر کے بندھائے ڈھارس میری
جب بھی کرے یلغار افسردہ دلی دے دل کو کچوکے کاہش بے ثمری کانوں میں ندائے حسبک اللہ آئے اور آ کر کے بندھائے ڈھارس میری
ادیان و مذہب و ملل کی جنگیں شاید ہی قیام حشر سے پہلے رکیں بندے ترے اے بار خدایا! کس سے اس تاخت و تاراج کی فریاد کریں
کیا ارض و سما میں نظر آتا ہے خلل ممکن ہے کہیں ان میں کوئی رد و بدل بے مقصد و منشا نہیں ہنگامۂ کن ہر چیز کا اک مقام ہر شے کا عمل
زندہ ہے اگر یار تو صحبت باقی یہ کہہ کر کرتے ہیں تسلی دل کی لگتا نہیں لیکن کہ کسی جگ میں بھی سنسار میں پیار کو سپھلتا ہوگی
جب دست خزاں سے بکھرے شیرازۂ گل باندھے رخت سفر چمن سے بلبل یعنی کوئی افتاد ہو نازل جس وقت نکلیں سب دوست دوستان سر پل
کر لطف و مدارات سے دل خلق کو رام بن عفو و مواسات سے مخدوم انام مستغنیٔ طرد و طعن کوتہ نظراں رکھ اپنے کو وابستۂ انجاح مرام
رحمان و رحیم ہے وہ رب عباد دیتا نہیں اس کا ہے یہ محکم ارشاد ''تکلیف کسی کو اس کی طاقت سے زیاد!'' کیا جانیں ''زیاد'' سے ہے کیا اس کی مراد
اے اہل فراست بڑھو بے خوف و ہراس ہمراہیٔ تحقیق ہیں بے شک و ابلاس ہیں پیچ و خم آثار سواد منزل آواز جرس وسوسہ ہائے خناس
الفت میں مرے تو زندگی ملتی ہے غم لاکھ سہے تو ایک خوشی ملتی ہے ہر شمع کو بزم دہر میں اے آسیؔ جلنے ہی کے بعد روشنی ملتی ہے
باتوں میں تو اختیار شیرینی کر اظہار نیاز و عجز و مسکینی کر خواہش ہو جو آنکھوں میں جگہ پانے کی اے مردم دیدہ ترک خود بینی کر