غفلت کے تخم بونے والے اٹھے
غفلت کے تخم بونے والے اٹھے اوقات عزیز کھونے والے اٹھے چمکا جو تیرا نور تو آنکھیں کھولیں سورج نکلا تو سونے والے اٹھے
غفلت کے تخم بونے والے اٹھے اوقات عزیز کھونے والے اٹھے چمکا جو تیرا نور تو آنکھیں کھولیں سورج نکلا تو سونے والے اٹھے
پیری میں شباب کی نشانی نہ ملی افسوس متاع زندگانی نہ ملی جو کچھ کھویا تھا ڈھونڈ کر پھر پایا ہر چیز ملی مگر جوانی نہ ملی
پیدل نہ مجھے روز شمار ان سے دے مرکب پہ لیے گنہ کا بار آنے دے میں گھر سے لحد تک بھی گیا ہو کے سوار محشر میں بھی تو مجھ کو سوار آنے دے
کچھ لطف سخن وقت ملاقات نہیں لب پر تعریف دل پہ گر ہات نہیں یک واہ کرے تو دوسرا آہ کرے جس میں نہ اثر ہو وہ مری بات نہیں
صوفی ہوں نہ واعظ ہوں نہیں ہوں ملا بلبل نہیں اے گل جو کہوں میں گل لا وہ رند ہوں مل مے کدۂ دیر میں میں ملا سے بھی کہتا ہوں کہ ملا مل لا
ہیں ایک حکیم جی بہ شکل طاعون ہے رقص تقسیم مخل ان کا قانون پڑھتے ہیں نفیس اور خود ہیں وہ کثیف نسخے ہیں عجیب اور طرفہ معجون
احسان جو اجل سے کام تیرا بگڑے اس وقت نہ ہو دل میں جہاں کے جھگڑے یوں تو کلمہ پڑھے طوطا بھی ولے ٹیں ٹیں کرتا ہے جب بلی پکڑے
دل ہے مرا رمنۂ غزالان خیال بیٹھیں نہ کبھی نچلے وہ چنچل چونچال سوتے میں بھی رکھتے ہیں جگائے مجھ کو رم ان میں ہیں کچھ تو پکڑ جن کی محال
گو ہم بھی کچھ ایسے ان سے خورسند نہیں لیکن ان کے خلاف بھی کمر بند نہیں روکے ہمیں ڈر خدا کا یہ کہنے سے ''ابنائے زماں قابل پیوند نہیں!''
تا عمر رہے ہم گو سرگرم عمل حاصل نہ ہوا کچھ بھی بجز طول امل وہ کون ہیں جن کا ہر منورتھ سدھ ہو ہر کوشش بار آور ہر کاج سپھل