اللہ متاع زندگانی مل جائے
اللہ متاع زندگانی مل جائے پھر عہد شباب کی نشانی مل جائے تھی آس بڑھاپے میں تری ملنے کی جب تو نہ ملا تو پھر جوانی مل جائے
اللہ متاع زندگانی مل جائے پھر عہد شباب کی نشانی مل جائے تھی آس بڑھاپے میں تری ملنے کی جب تو نہ ملا تو پھر جوانی مل جائے
اقرار نگر کو گدائی کا ہے دعویٰ افلاس و بے نوائی کا ہے ہر بات میں ہے فروتنی کا اظہار یہ بھی انداز خود ستائی کا ہے
کہتے ہیں کہ رونق جمالی ہوں میں شہرہ ہے کہ جلوۂ جلالی ہوں میں جو نام پسند آئے پکارو مجھ کو کچھ بھی نہیں تصویر خیالی ہوں میں
افزوں جو شباب دم بدم ہوتا ہے گھٹتی ہے عمر کیا ستم ہوتا ہے ہے مثل چراغ زندگانی مائلؔ بتی جلتی ہے تیل کم ہوتا ہے
یہ مجھ سے نہ پوچھ تو نے کیا کیا دیکھا یا رب جو کچھ نظر نے دیکھا دیکھا خود ہی کو ٹٹولنے کی نوبت آئی اچھا میں نے ترا تماشا دیکھا
اشک آئے غم شہ سے جو چشم تر میں دل جلنے لگا تڑپ تڑپ کر بر میں مائلؔ یہ ماجرا نہ دیکھا نہ سنا پانی سے لگی آگ خدا کے گھر میں
ہم راہ عدم سے اضطراب آیا ہے میرے لیے دنیا میں عذاب آیا ہے طفلی میں پڑی تھی دونوں ہاتھوں پر مار اب دل کی ہے باری کہ شباب آیا ہے
میں اپنے کفن کا سینے والا نکلا ہر سانس میں مر کے جینے والا نکلا مائلؔ کیا ہوش کی یہی باتیں ہیں صوفی سمجھا تو پینے والا نکلا
نقشہ لیل و نہار کا کھینچا ہے موسم کا خط جدا جدا کھینچا ہے سورج نقطۂ زمین کی گردش پرکار یہ دائرہ فلسفی نے کیا کھینچا ہے
میں سر پہ گناہوں کا لئے بار آیا میں حشر میں پی کے مست و سرشار آیا دیکھا جو مجھے جھومتے اور آگ لگی دوزخ یہ پکارا وہ گنہ گار آیا