در پر مظلوم اک پڑا روتا ہے
در پر مظلوم اک پڑا روتا ہے بچارا بلا میں مبتلا روتا ہے کہتا ہے وہ شوخ تال سم ٹھیک نہیں کیا اس کی سنوں کہ بے سرا روتا ہے
در پر مظلوم اک پڑا روتا ہے بچارا بلا میں مبتلا روتا ہے کہتا ہے وہ شوخ تال سم ٹھیک نہیں کیا اس کی سنوں کہ بے سرا روتا ہے
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو برق گر جائے گی اک دن اور اڑ جائے گی بھاپ دیکھنا اکبرؔ بچائے رکھنا اپنے آپ کو
غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا اکبرؔ نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
کہتا ہوں تو تہمت حسد ہوتی ہے خاموشی میں دل کو سخت کد ہوتی ہے دنیا طلبی ضرور ہے انساں کو لیکن ہر شے کی ایک حد ہوتی ہے
سنتا نہیں کچھ کسی سے بڑھ بڑھ کے سوا کہتا نہیں کوئی کچھ پڑھ پڑھ کے سوا پڑھنے کا نہ ٹھیک اصول بڑھنے کی نہ راہ اور قبلہ کوئی نہیں علی گڑھ کے سوا
رکھو جو مقابل اس کے سارا عالم دنیا بخدا ہے اک ذرے سے بھی کم اس اک ذرے میں ہے ہماری کیا اصل نافہم ہیں کر رہے ہیں ناحق ہم ہم
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیسا پایا غفلت ہی میں آدمی کو ڈوبا پایا آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن کم تھیں بخدا کہ جن کو بینا پایا
دنیا سے میل کی ضرورت ہی نہیں مجھ کو اس کھیل کی ضرورت ہی نہیں درپیش ہے منزل عدم اے اکبرؔ اس راہ میں ریل کی ضرورت ہی نہیں
لے لے کے قلم کے لوگ بھالے نکلے ہر سمت سے بیسیوں رسالے نکلے افسوس کہ مفلسی نے چھاپہ مارا آخر احباب کے دوالے نکلے
طاقت وہ ہے با اثر جو سلطانی ہے اس جا ہے چمک جہاں زر افشانی ہے تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے