یہ پھول چمن کو کیا سنواریں ساقی
یہ پھول چمن کو کیا سنواریں ساقی کانٹوں میں الجھ گئیں بہاریں ساقی افسردہ فضا میں گھٹ رہی ہیں سانسیں اب قہقہے باقی نہ پکاریں ساقی
یہ پھول چمن کو کیا سنواریں ساقی کانٹوں میں الجھ گئیں بہاریں ساقی افسردہ فضا میں گھٹ رہی ہیں سانسیں اب قہقہے باقی نہ پکاریں ساقی
افسانۂ غم ہے شادمانی میری میں کون ہوں اور کیا جوانی میری ہنستا ہوں کہ مقتضائے ہستی ہے یہ روتا ہوں کہ زندگی ہے فانی میری
آغوش میں آ کہ کامرانی کر لوں کچھ روز خوشی سے زندگانی کر لوں اک جام مے طرب پلا دے ساقی فانی ہے حیات جاودانی کر لوں
ہر درد کو کر لیا گوارا میں نے طوفاں کو سمجھ لیا کنارا میں نے جو اشک بھی میری چشم تر سے ٹپکا قسمت کا بنا لیا ستارہ میں نے
یہ ساز طرب یہ شادمانی کب تک یہ کیف شراب ارغوانی کب تک آ ہوش میں آنکھ کھول فردا کو نہ بھول مانا کہ جواں ہے تو جوانی کب تک
اس نیت سے تنگ آ کے روئے ہم لوگ اس نیست کا راز پا کے روئے ہم لوگ ہنسنا تھا کسی کے سامنے کیا ہنستے روئے تو نظر بچا کے روئے ہم لوگ
خاموشی کا راز کھولنا بھی سیکھو آنکھوں کی زباں سے بولنا بھی سیکھو لب کیسے کہیں گے دل کی ساری باتیں نظروں سے نظر ٹٹولنا بھی سیکھو
ارباب وفا کی جاں گدازی دیکھی اور اس پر ستم کی سرفرازی دیکھی مفلس کا نیاز ہو کہ منعم کا غرور ہر چیز میں تیری بے نیازی دیکھی
یہ شوق شراب و جام و مینا کیسا ساقی نہیں تو اگر تو پینا کیسا آنکھوں سے نہاں ہے تو تو ہستی کیا ہے آغوش میں تو نہیں تو جینا کیسا
ہے فطرت زن رمیدہ آہو کی طرح چھو لو تو لرز جائے لجا لو کی طرح اس حسن کے پھول کو سنبھل کر دیکھو اڑ جائے نہ کہیں یہ بھی خوشبو کی طرح