دلکش نہیں وہ حسیں جسے شرم نہیں
دلکش نہیں وہ حسیں جسے شرم نہیں رونق نہیں اس کی جس کا دل گرم نہیں سختی میں بھی گداز طینت ہو جو صاف پگھلی ہے برف گو کہ وہ نرم نہیں
دلکش نہیں وہ حسیں جسے شرم نہیں رونق نہیں اس کی جس کا دل گرم نہیں سختی میں بھی گداز طینت ہو جو صاف پگھلی ہے برف گو کہ وہ نرم نہیں
سید صاحب سکھا گئے ہیں جو شعور کہتا نہیں تم سے میں کہ ہوں اس سے نفور سوتوں کو جگا دیا انہوں نے لیکن اللہ کا نام لے کے اٹھنا ہے ضرور
اب تک جو کہیں ہماری قسمت نہ لڑی ناحق تجھے ہم نشیں ہے فکر اس کی پڑی انگریز کے ملک میں لڑائی کیسی یہ ہند ہے یہاں خوش انتظامی ہے بڑی
کہہ دو کہ میں خوش ہوں رکھوں گر آپ کو خوش بجلی چمکاؤں اور کروں بھاپ کو خوش سیکھوں ہر علم و فن مگر فرض یہ ہے ہر حال میں رکھوں اپنے ماں باپ کو خوش
ہمدرد ہوں سب یہ لطف آبادی ہے ہمسایہ بھی ہو شریک تب شادی ہے تسکین ہے جبکہ ہو خدا پر تکیہ قانون بنا سکیں تب آزادی ہے
افسوس سفید ہو گئے بال ترے لیکن ہیں سیاہ اب بھی اعمال ترے تو زلف بتاں بنا ہوا ہے اب تک دنیا پہ ہنوز پڑتے ہیں جال ترے
جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں جو بات ہے کام کی وہ چلنے کی نہیں یہ بھی ہے بہت کہ دل سنبھالے رہئے قومی حالت یہاں سنبھلنے کی نہیں
ہے حرص و ہوس کے فن کی مجھ کو تکمیل غیرت نہیں میری بزم دانش میں دخیل ہیں نفس کی خواہشیں بہت مجھ کو عزیز جب چاہیں کریں خوشی سے مجھ کو وہ ذلیل
غفلت کی ہنسی سے آہ بھرنا اچھا افعال مضر سے کچھ نہ کرنا اچھا اکبرؔ نے سنا ہے اہل غیر سے یہی جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا
مسکین گدا ہو یا ہو شاہ ذی جاہ بیماری و موت سے کہاں کس کو پناہ آ ہی جاتا ہے زندگی میں اک وقت کرنا پڑتا ہے سب کو اللہ اللہ