وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں
وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں اغیار ان پر گزرتے ہیں اب خندہ زناں جھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحث ہے سخت مضر یہ نسخۂ گاؤ زباں
وہ لطف اب ہندو مسلماں میں کہاں اغیار ان پر گزرتے ہیں اب خندہ زناں جھگڑا کبھی گائے کا زباں کی کبھی بحث ہے سخت مضر یہ نسخۂ گاؤ زباں
رکتا نہیں انقلاب چارا کیا ہے حیراں ہیں ملک بشر بچارا کیا ہے تسکیں کے لیے مگر ہے کافی یہ خیال جو کچھ ہے خدا کا ہے ہمارا کیا ہے
بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا لائے جو راہ پر وہی ڈھنگ اچھا قرآن و نماز سے اگر دل نہ ہو گرم ہنگامۂ رقص و مطرب و چنگ اچھا
شیطان سے دل کو ربط ہو جاتا ہے دشوار انساں کو ضبط ہو جاتا ہے حد سے جو سوا ہو حرص یا خود بینی اکثر ہے یہی کہ خبط ہو جاتا ہے
لذت چاہو تو وصل معشوق کہاں شوکت چاہو تو زر کا صندوق کہاں کہتا ہے یہ دل کہ خودکشی کی ٹھہرے خیر اس کو بھی مان لیں تو بندوق کہاں
افسوس ہے بد گماں کی آزادی پر خالق کبھی خوش نہ ہوگا بربادی پر طاعون سے کیوں ہے اتنی وحشت اکبرؔ یہ تو اک ٹیکس ہے اس آبادی پر
اعزاز سلف کے مٹتے جاتے ہیں نشاں اگلے سے خیالات ہند میں اب وہ کہاں سید بننا ہو تو بنو سر سید ہونا ہو جو ''خاں'' تو بنو انگریز خواں
تدبیر کریں تو اس میں ناکامی ہو تقدیر کا نام لیں تو بد نامی ہو القصہ عجیب ضیق میں ہیں ہندی یورپ کا خدا کہاں پر جو حامی ہو
روزی مل جائے مال و دولت نہ سہی راحت ہو نصیب شان و شوکت نہ سہی گھر بار میں خوش رہیں عزیزوں کے ساتھ دربار میں باہمی رقابت نہ سہی
لفظوں کے چمن بھی اس میں کھل جاتے ہیں بے ساختہ قافیے بھی مل جاتے ہیں دل کو مطلق نہیں ترقی ہوتی تعریف میں سر اگرچہ ہل جاتے ہیں