فریاد ہے کس لیے در یزداں پر
فریاد ہے کس لیے در یزداں پر الزام تراشتے ہو کیوں شیطاں پر یزداں نے کئے کبھی نہ شیطاں نے کئے انساں نے کئے ہیں جو ستم انساں پر
فریاد ہے کس لیے در یزداں پر الزام تراشتے ہو کیوں شیطاں پر یزداں نے کئے کبھی نہ شیطاں نے کئے انساں نے کئے ہیں جو ستم انساں پر
انکار گناہ بھی کئے جاتا ہوں تکرار گناہ بھی کئے جاتا ہوں حاصل ہو ثواب مفت اس لالچ میں اقرار گناہ بھی کئے جاتا ہوں
ہنگامہ ترا ہی گرم ہر اک سو ہے تیرے دم سے ہے جتنی ہا و ہو ہے دل سے پیہم یہی صدا اٹھتی ہے تو ہی تو ہے جہاں میں تو ہی تو ہے
ہر زہر کو تریاک سمجھ کر پی لو تلخی کوئی ابھرے تو لبوں کو سی لو ہر سانس میں موت تلملانے لگ جائے جینا ہے اگر یہی تو بے شک جی لو
اب ولولے عشق کے تمنا میں نہیں مجنوں کوئی جستجوئے لیلیٰ میں نہیں جانے گزرے ہیں کس طرح سے راہرو اک نقش قدم بھی ریگ صحرا میں نہیں
تسکین وصال و رنج فرقت کیا ہے کیا ہے یہ کشاکش محبت کیا ہے اے راز حیات کے سمجھنے والو انسان کے قلب کی حقیقت کیا ہے
یا قلب کو درد میں ڈبونا سیکھو یا ضبط سے ہمکنار ہونا سیکھو اس حسن کو دیکھتے رہوگے کب تک جلووں کو نگاہ میں سمونا سیکھو
انساں میں روح آدمیت بھی نہیں حیواں ہی بن جائے یہ ہمت بھی نہیں کل اپنے عروج پہ تھی حیرت اس کو آج اپنے زوال پہ ندامت بھی نہیں
سینے میں اچھل رہی ہے حسرت میری آنکھوں میں تڑپ رہی ہے حیرت میری سنتا ہوں ہر ایک شے میں پنہاں ہے تو اس پر بھی نہ تو ملے تو قسمت میری
یہ مرحلہ ہائے شوق توبہ توبہ اس عمر میں طے کرے گا انساں کیا کیا رفتار ہے راہرو کی ذرہ ذرہ اور شوق کی منزلیں ہیں صحرا صحرا