قطرہ سمجھے حقیقت دریا کیا
قطرہ سمجھے حقیقت دریا کیا ذرے کو علم وسعت صحرا کیا پایا نہ سراغ ذات بے پایاں کا عقل انسان بھٹک رہی ہے کیا کیا
قطرہ سمجھے حقیقت دریا کیا ذرے کو علم وسعت صحرا کیا پایا نہ سراغ ذات بے پایاں کا عقل انسان بھٹک رہی ہے کیا کیا
ہے نازش کائنات یہ پیکر خاک دھوم اس نے مچا رکھی ہے زیر افلاک یہ دار فنا یہ اس کی بزم آرائی غافل انجام سے ہے یا ہے بے باک
اڑتے دیکھا جو طائر پراں کو اڑنے کی امنگ لے اڑی انساں کو گولے برسائے زمیں پر اس نے پرواز نصیب جب ہوئی ناداں کو
جب کالی گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں ساون کا گیت کوئلیں گاتی ہیں تب یاد میں گزری ہوئی برساتوں کی آنکھیں مری سیل اشک برساتی ہیں
کالا انسان ہو یا کوئی زرد انسان رنگت میں ہو یا چاند کی گرد انسان خارج انسانیت سے اس کو سمجھو انساں کا اگر نہیں ہے ہمدرد انسان
دروازے پہ تیرے اک جہاں جھکتا ہے اونچے اونچوں کا سر یہاں جھکتا ہے کیوں کر نہ جھکے زمیں میں وقعت کیا ہے با عجز و نیاز آسماں جھکتا ہے
ظاہر میں قضا بہت ستم ڈھاتی ہے جاں سن کے اجل کا نام ڈر جاتی ہے لیکن ہر موت کا نتیجہ ہے حیات ہر شام پیغام صبح نو لاتی ہے
راز ہستی بشر کو ہو کیا معلوم سرگرداں عقل ہے نتیجہ معلوم با وصف ہزار علم اس کو اپنا آگا معلوم ہے نہ پیچھا معلوم
جنگل کی یہ دل نشیں فضا یہ برسات یہ نغمۂ باراں یہ ہوا یہ برسات سامان وارفتگئ شاعر کے ہیں کوئل کی یہ کوک یہ گھٹا یہ برسات
ہم بھول کو اپنی علم و فن سمجھے ہیں غربت کے مقام کو وطن سمجھے ہیں منزل پہ پہنچ کے جھاڑ دیں گے اس کو یہ گرد سفر ہے جس کو تن سمجھے ہیں