رونا ہے بدا جنہیں وہ جم جم روئیں
رونا ہے بدا جنہیں وہ جم جم روئیں جب عیش مہیا ہو تو ہم کیوں کھوئیں فردا معلوم و راز فردا معلوم رات اپنی ہے پھر کیوں نہ مزے سے سوئیں
رونا ہے بدا جنہیں وہ جم جم روئیں جب عیش مہیا ہو تو ہم کیوں کھوئیں فردا معلوم و راز فردا معلوم رات اپنی ہے پھر کیوں نہ مزے سے سوئیں
درد اپنا کچھ اور ہے دوا ہے کچھ اور ٹوٹے ہوئے دل کا آسرا ہے کچھ اور ایسے ویسے خدا تو بہتیرے ہیں میں بندہ ہوں جس کا وہ خدا ہے کچھ اور
مجھ سے جو نہ ملتے وہ کوئی رات نہ تھی مجھ سے جو نہ کہتے وہ کوئی بات نہ تھی بے گانگی اب انہوں نے ایسی برتی گویا کہ کبھی مجھ سے ملاقات نہ تھی
کیوں غمزۂ جاں ستاں کو خنجر نہ کہیں کیوں عشوۂ دل نشیں کو نشتر نہ کہیں کہتے ہو کہ کچھ شان میں میری نہ کہو یوں ظلم کرو اور ستم گر نہ کہیں
بے سمجھے نہ جام غم پیا تھا میں نے یہ کام تو جان کر کیا تھا میں نے انجام پہ تھی نظر جو رویا تھا بہت جس روز کہ تجھ کو دل دیا تھا میں نے
جو حسن میں آ کے ناز بن جاتا ہے اور عشق میں جو نیاز بن جاتا ہے جو نغموں میں جا کے ساز بن جاتا ہے دل میں مرے آ کے راز بن جاتا ہے
دیکھو دیکھو حیات فانی دیکھو دریا میں حباب کی روانی دیکھو او نام پہ زندگی کے مرنے والو سر سے وہ گزر رہا ہے پانی دیکھو
آ دل میں فضائے طور بن کر چھا جا رگ رگ میں صفات نور بن کر چھا جا اے ساقیٔ بزم کن میں صدقے تیرے آنکھوں میں مری سرور بن کر چھا جا
جب گلشن دہر میں تھا مسکن میرا پھولوں سے بھرا ہوا تھا دامن میرا اب بعد فنا سبک ہوں اتنا وحشیؔ نکہت میں گلوں کے ہے نشیمن میرا
رنگینیٔ بزم و بو کس کی ہے مرغان چمن میں گفتگو کس کی ہے ہے لالے کے دل میں داغ حسرت کس کا نرگس حیران جستجو کس کی ہے