دل کو حد سے سوا دھڑکنے نہ دیا
دل کو حد سے سوا دھڑکنے نہ دیا قالب میں روح کو پھڑکنے نہ دیا کیا آگ تھی سینے میں جسے فطرت نے روشن تو کیا مگر بھڑکنے نہ دیا
دل کو حد سے سوا دھڑکنے نہ دیا قالب میں روح کو پھڑکنے نہ دیا کیا آگ تھی سینے میں جسے فطرت نے روشن تو کیا مگر بھڑکنے نہ دیا
امکان طلب سے کوئی آگاہ تو ہو منزل کا تہ دل سے ہوا خواہ تو ہو چل پھر کے ذرا دیکھ جھجکتا کیا ہے مل جائے گی راہ راست گمراہ تو ہو
واعظ کو مناسب نہیں رندوں سے تنے منبر پہ لتاڑ دیں اگر دل میں ٹھنے اچھے ہیں یگانہؔ یا برے جیسے ہیں یاروں نے بنا دیا کہ خود ایسے بنے
مفلس کو مزہ زیست کا چکھنے نہ دیا اس نقد شباب کو پرکھنے نہ دیا دنیا سے لپٹتے تو لپٹتے کیوں کر پٹھے پہ کبھی ہاتھ تو رکھنے نہ دیا
دیکھوں کب تک گلوں کی یہ تشنہ لبی فطرت کا گلہ کروں تو ہے بے ادبی پیاسے تو ہیں جاں بہ لب مگر ابر کرم دریا پہ برستا ہے زہے بوالعجبی
حیران ہے کیوں راز بقا مجھ سے پوچھ میں زندۂ جاوید ہوں آ مجھ سے پوچھ مرتے ہیں کہیں دلوں سے بسنے والے جینا ہے تو موت کی دوا مجھ سے پوچھ
ہاں اے دل ایذا طلب آرام نہ لے بدنام نہ ہو مفت کا الزام نہ لے ہاتھ آنا سکے پھول تو کانٹے ہی سہی ناکام پلٹنے کا کبھی نام نہ لے
دنیا میں رہ کے راست بازی کب تک مشکل ہے کچھ آساں نہیں سیدھا مسلک سچ بول کے کیا حسین بننا ہے تجھے اتنا سچ بول دال میں جیسے نمک
پروانے کہاں مرتے بچھڑتے پہنچے دیوانہ صفت ہوا سے لڑتے پہنچے پیاس آگ میں کود کر بجھانے والے دھن کے پکے تھے گرتے پڑتے پہنچے
مشکل کوئی مشکل نہیں جینے کے سوا خاموش لہو کا گھونٹ پینے کے سوا کھلتے ہیں جبھی جوہر تسلیم و رضا جب کوئی سپر ہی نہ ہو سینے کے سوا