آپ ہیں محو حسن و رعنائی
آپ ہیں محو حسن و رعنائی ہم کو اپنا کیا ہے سودائی دیکھ راز و نیاز کو ساقی خود تماشا و خود تماشائی
آپ ہیں محو حسن و رعنائی ہم کو اپنا کیا ہے سودائی دیکھ راز و نیاز کو ساقی خود تماشا و خود تماشائی
جس سے تیری ہوئی ہے یکتائی اس نے وحدت سے آگہی پائی آپ وحدت ہے آپ کثرت ہے خود تماشا و خود تماشائی
اپنی صورت نہ جب نظر آئی شکل آوارگوں نے دکھلائی اس سے نکلے تو یہ تماشا ہے خود تماشا و خود تماشائی
ہوئے بے خود تو بے خودی آئی خود شناسی ہوئی خود آرائی خود نمائی نہیں خدائی ہے خود تماشا و خود تماشائی
دیکھ کر تیری عالم آرائی تیری پنہائی اور پیدائی دیکھ راز و نیاز کو ساقیؔ خود تماشا و خود تماشائی
عشق معشوق کا ہے پیدائی عاشقی نے یہ شکل دکھلائی عشق و معشوق دونوں عاشق ہیں خود تماشا و خود تماشائی
دل ہی کی طرح منہ بھی ہے کالا دیکھو اس پر نماز کا یہ اجالا بھی دیکھو بستر ہی پہ سر ٹیک رہی ہے ظالم دم توڑتی دولت کا سنبھالا دیکھو
بلبل کی زباں تک جلا ڈالی ہے مسموم ہوائے گل بنا ڈالی ہے ان آگ کے تاجروں نے اے ابر بہار گلشن میں بھی بارود بچھا ڈالی ہے
کشتیٔ حیات کھے سکوں گا کیوں کر ہمت کا میں ساتھ دے سکوں گا کیوں کر ساقی نہ اگر تیرا سہارا ہوگا جینے کا میں نام لے سکوں گا کیوں کر
ہر پتے میں اک دھار لئے چٹکیں گے ہر سانس میں تلوار لئے چٹکیں گے دہکے ہوئے فولاد کے ہیں ہم غنچے چٹکیں گے تو جھنکار لئے چٹکیں گے