کافور ہے دل جلوں کو تنویر سحر
کافور ہے دل جلوں کو تنویر سحر ٹھنڈک ہے کلیجوں کی طباشیر سحر جی انہیں دلوں میں آرزوئیں مر کر کیا روح فزا ہے واہ تاثیر سحر
کافور ہے دل جلوں کو تنویر سحر ٹھنڈک ہے کلیجوں کی طباشیر سحر جی انہیں دلوں میں آرزوئیں مر کر کیا روح فزا ہے واہ تاثیر سحر
ایسا نہ ہو حق کا سامنا ہو جائے سارا یہ طلسمات ہوا ہو جائے کیا کرتا ہے سچ پہ جان دینے والے یاروں کا مزا نہ کرکرا ہو جائے
اپنی حد سے گزر گئے اب کیا ہے منجدھار سے پار اتر گئے اب کیا ہے اے شوق وصال اے تمنائے سکوں دونوں پلے تو بھر گئے اب کیا ہے
ممکن نہیں اندیشۂ فردا کم ہو ہاں تشنۂ غفلت ہو تو ایذا کم ہو ٹلنے کی نہیں قیامت اچھا نہ ٹلے منہ پھیر لو اپنا کہ یہ دھڑکا کم ہو
چارہ نہیں کوئی جلتے رہنے کے سوا سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا اے شمع تری حیات فانی کیا ہے جھونکا کھانے سنبھلتے رہنے کے سوا
کیوں مطلب ہستی و عدم کھل جاتا کیوں راز طلسم کیف و کم کھل جاتا کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے آنکھیں کھلتیں تو سب بھرم کھل جاتا
زنجیر سے ہونے کا نہیں دل بھاری ہوں پاؤں میں کتنی ہی سلاسل بھاری کعبہ کا سفر ہی کیا ہے گھر سے در تک دل سے دل تک مگر ہے منزل بھاری
بادل کو لگی کھلتے برستے کچھ دیر دل کو نہ لگی اجڑتے بستے کچھ دیر بچوں کی طرح موم ہوا ہوں ایسا روتے کچھ دیر ہے نہ ہنستے کچھ دیر
دنیا طلبی جائے گی کیا جان کے ساتھ کیسی یہ بلا لگی مسلمان کے ساتھ کیسا قرآن اور کہاں کا ایمان ایمان رہا طاق پہ قرآن کے ساتھ
ارمان نکلنے کا مزہ ہے کچھ اور اور رشک سے جلنے کا مزہ ہے کچھ اور ہاں یاد ہے دوست سے لپٹنا لیکن دشمن کو کچلنے کا مزہ ہے کچھ اور