کس طرح کہوں آ بھی کہیں عذر نہ کر
کس طرح کہوں آ بھی کہیں عذر نہ کر رسوائی ناموس کا ہے کس کو ڈر وہ پردہ نشیں خلوت دل میں کیا آئے امید تو جاتی نہیں دل سے باہر
کس طرح کہوں آ بھی کہیں عذر نہ کر رسوائی ناموس کا ہے کس کو ڈر وہ پردہ نشیں خلوت دل میں کیا آئے امید تو جاتی نہیں دل سے باہر
مسجد کو دیا چھوڑ ریا کی خاطر کعبے نہیں جاتا تو حیا کی خاطر مے خانے میں جاتا ہوں تو رحمت کے لئے مے پیتا ہوں احسان خدا کی خاطر
دنیا میں قلقؔ کیا ہے سراسر ہے خاک درویش ہے خاک اور تونگر ہے خاک مٹنے کے لیے شکل بنی ہے سب کی جو خاک کی سوغات ہے آخر ہے خاک
دل سے مجھے آنے کی ہے آن کی آہٹ کیا طالع خفتہ کی گئی نیند اچٹ وہ پردہ نشیں گو کہ نہ آئے لیکن اے چرخ ذرا سامنے سے تو تو ہٹ
گردن کو جھکا دیتا ہے ادنیٰ احسان کس طرح سے دکھلائیں گے منہ نا احسان رزاق ہے تو اور غفورالعصیاں مے دیتا ہے ہم جیسوں کو تیرا احسان
کس طرح سے گریہ کو نہ ہو طغیانی ہے کشتیٔ دریائے کرم طوفانی عباس کے شانے بھی گرے مشک کے ساتھ اے تشنہ لبی اب تو ہو پانی پانی
اس وقت زمانے میں بہم ایسے ہیں ہر بزم میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے ہیں ہے رند ہزار شیوہ ہر چند قلقؔ ایماں سے اگر پوچھئے کم ایسے ہیں
ہر روز خوشی ہے شب غم سے پامال خالی کا ہے چاند بعد شہر شوال کس طرح قلقؔ عمر نہ روتے گزرے ہوتا ہے محرم سے شروع ہر سال
اے ابر کہاں تک ترے رستے دیکھیں اس طرح سے دنیا کو ترستے دیکھیں بھولا نہیں بارش کا طریقہ تو اگر آ سامنے ہم بھی تو برستے دیکھیں
تو نے صورت جو اپنی دکھلائی مٹ گئی ساری یہ من و مائی اس سے ثابت ہے تو ہے ہرجائی خود تماشا و خود تماشائی