بانو نے کہا قطرہ نہیں شیر کا ہے
بانو نے کہا قطرہ نہیں شیر کا ہے اور حال برا اصغر دلگیر کا ہے شہہ بولے کہ تم صبر کرو شکر کرو کوثر میں بھی اب فاصلہ اک تیر کا ہے
بانو نے کہا قطرہ نہیں شیر کا ہے اور حال برا اصغر دلگیر کا ہے شہہ بولے کہ تم صبر کرو شکر کرو کوثر میں بھی اب فاصلہ اک تیر کا ہے
دروازے پہ تیرے ہی مروں گا یا رب کیا بیم جہنم نہ ڈروں گا یا رب گستاخیٔ عذر بعد عصیاں معیوب توبہ ہے کہ توبہ نہ کروں گا یا رب
جاں جائے پر امید نہ جائے گی کبھی نیند آنکھ میں آرام نہ پائے گی کبھی غیر آئے گا کیوں خانۂ دل میں تو آ اے پردہ نشیں یاس نہ آئے گی کبھی
جب باپ موا تو پھر ہے بیٹا کیا شے آگے پیچھے دھریں ہیں سب کے لاشے دنیا ہے قلقؔ کچھ تو یہی کچھ ہے بس ہر چیز ہے نا چیز تو ہر شے لا شے
وہ وقت شباب وہ زمانہ نہ رہا وہ نشہ مستی وہ ترانہ نہ رہا آتا ہے کہانی کا مزہ باتوں میں اب اپنے سوا کوئی فسانہ نہ رہا
جو جا کے نہ آئے پھر جوانی ہے یہ شے پر حیف نصیب رائیگانی ہے یہ شے کیا جان کی فکر لینی دینی ہے یہ چیز کیا دل کا خیال آنی جانی ہے یہ شے
کہتا ہوں خدا لگتی عقیدے کے خلاف ہے تیرا خطاوار سزاوار معاف ہے رحم ہی شایان خدائی تجھ کو انصاف یہی ہے کہ نہ کرنا انصاف
کیا جانیے الفت کا ہے کس سے آغاز جاں پر نہیں ہوتا کوئی اس کا جاں باز حاصل نہیں کچھ دوست کی کوشش سے قلقؔ دشمن کے سوا کوئی نہیں محرم راز
اے چشم غمیں تیرے عوض روئے کون جی اپنا بھلا میرے لیے کھوئے کون افسانۂ وصل کس سے پوچھوں شب ہجر آپ ہی میں کہوں آپ سنوں سوئے کون
دل دیر گزاری سے ہے آوند نمک ہر زخم جگر رہتا ہے دل بند نمک یک رو ہے قلقؔ جانتا ہے عادت کو ہر ایک سے یکساں ہوں میں مانند نمک