یارب تجھے فکر پائے بندی کیا ہے
یا رب تجھے فکر پائے بندی کیا ہے نا چار کی و نیاز مندی کیا ہے ہے خالقی اور عاشقی ہے اور پوچھ ہم ہی سے درد و درد مندی کیا ہے
یا رب تجھے فکر پائے بندی کیا ہے نا چار کی و نیاز مندی کیا ہے ہے خالقی اور عاشقی ہے اور پوچھ ہم ہی سے درد و درد مندی کیا ہے
خورشید پہ جس وقت زوال آتا ہے کیوں زیر زمیں چھپ کے چلا جاتا ہے جو داغ تہ خاک ہیں روشن ان سے ہر شب یہ چراغ اپنا جلا جاتا ہے
اس بزم سے میدان میں جانا ہوگا ایواں سے بیابان میں جانا ہوگا ہشیار ہو تیار ہو زنہار نہ سو کیا جانیے کس آن میں جانا ہوگا
مرمر کے پئے رنج و بلا جیتے ہیں ناراض ہیں راضی بہ رضا جیتے ہیں ارمان مجسم ہے سراپا اپنا جی مار کے جیتے ہیں تو کیا جیتے ہیں
جاہل کی ہے میراث قلقؔ تخت و تاج کامل ہے سدا بے ہنروں کا محتاج ابلیس کا عصیاں نہیں جز کبر کمال بے قدریٔ فن کا ہے ازل ہی سے رواج
لو جائیے بس خدا ہمارا حافظ بے یار کا ہے وہی پیارا حافظ کیا رشک مرے دل سے گیا گزرا ہے کس منہ سے کہوں خدا تمہارا حافظ
شہہ کہتے تھے افسوس نہ کہنا مانے عباس کو وہ گھیر لیا اعدا نے اے کوفیو یہ دست درازی ہیہات باللہ کہ یداللہ کے کاٹے شانے
یہ شہر بلند عالم بالا سے تھا ہم شکل غرض جنت ماویٰ سے تھا اب کیا ہے اک آبادیٔ ریگستاں ہے دہلی کو شرف قلعۂ معلی سے تھا
اے پردہ نشیں سہل ہوا یہ اشکال در پردہ نہیں وصل سے کم تیرا خیال آئینۂ دیدہ کے ادھر پھرتے ہو اس طرف نظر کے ہے طلسمات وصال
یاں ہم کو دیا کیا جو وہاں پر ہو نگاہ طاعت سے کچھ امید نہ کچھ خوف گناہ کر فضل ہی اپنا کہ عدالت کیسی آپ ہی تو مدعی ہے آپ ہی ہے گواہ