ہے مہر کرم گناہ گاری میری
ہے مہر کرم گناہ گاری میری امضائے نوید امیدواری میری کر رحم نہ انصاف کہ سب جانتے ہیں رحمت تیری تباہ کاری میری
ہے مہر کرم گناہ گاری میری امضائے نوید امیدواری میری کر رحم نہ انصاف کہ سب جانتے ہیں رحمت تیری تباہ کاری میری
مسجد میں نہ جا واں نہیں ہونے کا نباہ بے وجہ خصوصیت بھی ہے عصیاں کی گواہ مے خانے میں صدیق مسلمان ہیں گبر کیا جوش محبت ہے کہ اللہ اللہ
کس واسطے دی تھیں ہمیں یا رب آنکھیں واللہ کہ بے دید ہیں بے ڈھب آنکھیں دانائی ہے نادان تو بینائی کور کب آپ کو دیکھا کہ مندیں جب آنکھیں
کیا ذکر وفا جفا کسی سے نہ بنی گر دوست ملا تو مدعی سے نہ بنی آخر کو قلقؔ نے زہر کھایا ناچار اب کس سے بنی جب اپنے جی سے نہ بنی
خود رفتہ ہو بدمست ہو کیسا ہے مزاج کل آپ کی کیا وضع تھی کیا رنگ ہے آج دیکھا ہے اگر خواب زلیخا سنبھلو رعنائی یوسف کی کنواں ہے معراج
محراب و مصلیٰ اور زاہد بھی وہی سجدہ مسجود اور ساجد بھی وہی تکلیف قیامت ہے یہ کس کی خاطر حاکم بھی مدعی بھی شاہد بھی وہی
کیا لینے سوئے جاہ و حشم جائیں گے کیا دینے سر کوئے کرم جائیں گے آخر تو کہیں دیر کی نکلے گی راہ جائیں گے تو کعبے ہی کو ہم جائیں گے
ہم کوں ہیں اہتمام کرنے والے ہر کام میں صبح و شام کرنے والے کیا وعدہ و پیغام ہمارے تیرے وہ آپ ہیں اپنا کام کرنے والے
صد حیف کہ مے نوش ہوئے ہم کیسے ابرار سے روپوش ہوئے ہم کیسے کچھ یاں کا خیال ہے نہ واں کا کھٹکا ہوش آتے ہی بے ہوش ہوئے ہم کیسے
دامن سے گل تازہ مہکتے نکلے گلشن سے مرغ گل چہکتے نکلے کیا کہیے قلقؔ کہ صاف کہنا مشکل مے خانے سے کیوں مست بہکتے نکلے