آباد اسی نے دل کی وادی کی ہے
آباد اسی نے دل کی وادی کی ہے تاریخ نے اکثر یہ منادی کی ہے عورت کی بڑائی کا یہ کافی ہے ثبوت عورت سے پیمبروں نے شادی کی ہے
آباد اسی نے دل کی وادی کی ہے تاریخ نے اکثر یہ منادی کی ہے عورت کی بڑائی کا یہ کافی ہے ثبوت عورت سے پیمبروں نے شادی کی ہے
لیتا تھا جوانی میں کبھی جس کی پناہ وہ پیار نظر آتا ہے اب اس کو گناہ کیا ہو گیا اس عمر میں جانے اس کو یارب مرے دلبر کو دکھا سیدھی راہ
ٹوٹی ہوئی بانبی میں وہ بس لیتا ہے بھوکا ہو تو کچھ روز ترس لیتا ہے اس پر بھی نہیں سانپ کو ڈستا کوئی سانپ انساں مگر انسان کو ڈس لیتا ہے
آتی ہے تو کھلتی ہے گلابوں کی طرح دیتی ہے نشہ تند شرابوں کی طرح لیکن کوئی دیکھے یہ جوانی کا مآل بکھری ہے پڑھی ہوئی کتابوں کی طرح
لمحوں کا نشانہ کبھی ہوتا ہی نہیں وہ صید زمانہ کبھی ہوتا ہی نہیں ہر عمر میں دیکھا ہے دمکتا وہ بدن سونا تو پرانا کبھی ہوتا ہی نہیں
جس طرح کوچے میں تیرے پھرتے ہیں ہم بر طرف اے ستم گاری ہماری طرز ہیں کم بر طرف دل سے افریدیؔ کے اپنے حسن کے صدقے سے یار کیجئے گا دو جہاں کے جتنے ہیں غم بر طرف
کسی کا راغ مطالب کسی کا باغ مراد عوام خلق کو منظور ہے چراغ مراد نہیں ہے اپنی مراد آفریدیؔ اس کے سوا اگرچہ ہے بھی تو ساقی و یار ایاغ مراد
مجھ کو تو شراب سے مستی ہے اور تن قید کے چھوٹنے سے ہستی ہے اور قاسم علی دیر اور حرم کے اندر حق اور ہے شوق بت پرستی ہے اور
رکھتا ہے اپنے حسن پر وہ دل ربا گھمنڈ جیسے عبادت اپنے اوپر پارسا گھمنڈ شایاں ہے اس کے حسن پر اس کا غرور بھی افریدیؔ تو نہ کیجیو بہر خدا گھمنڈ
خط آزادی لکھا تھا شوخ نے فردا غلط دل میں رکھتا اور کچھ ظاہر لکھا انشا غلط آفریدیؔ جو ملے چھاتی لگا آنکھوں میں رکھ دستخط اس کا اگر املا ہے سرتاپا غلط