اب اور زمین و آسماں پیدا ہو
اب اور زمین و آسماں پیدا ہو قدرت سے نیا اک جہاں پیدا ہو اس واسطے یہ دعائیں کرتا ہوں رشیدؔ شاید مرا کوئی قدرداں پیدا ہو
اب اور زمین و آسماں پیدا ہو قدرت سے نیا اک جہاں پیدا ہو اس واسطے یہ دعائیں کرتا ہوں رشیدؔ شاید مرا کوئی قدرداں پیدا ہو
احباب ملاقات کو جو آتے ہیں ناحق مجھے غم دے کے چلے جاتے ہیں مجھ کو ہے وہی شام جوانی کا خیال اب صبح ہے میرے منہ پہ فرماتے ہیں
طفلی نے بے خودی کا آغاز کیا قوت پہ شباب نے بڑا ناز کیا پاؤں کی طرف سر کو جھکایا ہے رشیدؔ جس وقت سے پیروی نے سرفراز کیا
دنیا سے سبھی برے بھلے جائیں گے کیا خلق سے جز گناہ لے جائیں گے پیری سے ہیں خم حشر میں دیکھے گا کون جنت میں جھکے جھکے چلے جائیں گے
کچھ اہل زمیں حال نیا کہتے ہیں اچھا کہتے ہیں یا برا کہتے ہیں پیری کہتی ہے تیری مطلب کی ہے بات جھک کے سنتا ہوں میں کہ کیا کہتے ہیں
پیری میں حواس و ہوش سب کھوتے ہیں کب عہد جوانی کے لیے روتے ہیں ہشیار شباب میں تھے پیری میں ہیں غش شب بھر جاگے تھے صبح کو سوتے ہیں
کیوں کنج لحد کے متصل جاؤں گا کہنے کے لیے مطلب دل جاؤں گا پیری سے بنوں گا منکسر اور رشیدؔ جھکتے جھکتے زمیں سے اور مل جاؤں گا
کچھ دل سے جھکے ہوئے کہا کرتے ہیں آنسو بے کار بھی بہا کرتے ہیں پیروں کی عبادت کا معین نہیں وقت ہر وقت رکوع میں رہا کرتے ہیں
دہرائی ہے یادوں نے کہانی تیری آنکھوں میں ہے تصویر پرانی تیری وہ لوگ بتائیں گے قیامت کیا ہے جن لوگوں نے دیکھی ہے جوانی تیری
دریافت کرے وزن ہوا کا مجھ سے پوچھے وہ کبھی رنگ صدا کا مجھ سے ڈرتا ہوں وہ معلوم نہ کر بیٹھے کہیں کیا ناطہ ہے ساون کی گھٹا کا مجھ سے