وہ جس کو محبت کی روش کہتے ہیں
وہ جس کو محبت کی روش کہتے ہیں جذبات کی ہم اس کو تپش کہتے ہیں وہ چیز جسے حسن سمجھتے وہ ہیں اس کو ہی تو ہم جنسی کشش کہتے ہیں
وہ جس کو محبت کی روش کہتے ہیں جذبات کی ہم اس کو تپش کہتے ہیں وہ چیز جسے حسن سمجھتے وہ ہیں اس کو ہی تو ہم جنسی کشش کہتے ہیں
لکھے ہیں فقیر نے جو شاہی الفاظ یوں کرتے ہیں دزدیدہ نگاہی الفاظ حسن لب و رخسار کا ہے لوح پہ رنگ اور ہیں خم گیسو کی سیاہی الفاظ
جو نقش تھے پامال بنائے میں نے پھر الجھے ہوئے بال بنائے میں نے تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر پھر اپنے خد و خال بنائے میں نے
محراب کی پرچھائیاں تڑپاتی ہیں گنبد کی یہ گولائیاں چھا جاتی ہیں آتی ہیں ترے جسم کی دل میں یادیں یہ کیسی عمارات نظر آتی ہیں
تن کے لئے احکام دقیقہ بھی سناؤ غسل مخصوص کا سلیقہ بھی سکھاؤ نظریں برا کام کر کے طاہر ہوں، مجھے اے اہل شریعت وہ طریقہ بھی بتاؤ
بچپن میں تجھے یاد کیا تھا میں نے جب شعر کا کب لفظ سنا تھا میں نے اس پر نہیں موقوف رباعی تجھ کو ہر روز ہی تختی پہ لکھا تھا میں نے
نامی ہوئے بے نشان ہونے کے لیے افسانہ ہوئے بیان ہونے کے لیے کی موت قبول خواہش جنت میں ہم پیر ہوئے جوان ہونے کے لیے
کب تک میں رنج و غم کی شدت دیکھوں تا کے اپنے پہ یہ مصیبت دیکھوں گردوں نے پیر کر دیا ہے مجھ کو خم ہوں کہ بس اب نہ اس کی صورت دیکھوں
اندوہ شباب ٹالنے کو خم ہوں میں قلب و جگر سنبھالنے کو خم ہوں دونوں مرے پاؤں ہو گئے ہیں بے کار خار پیری نکالنے کو خم ہوں
معلوم تھا تکلیف سوا گزرے گی تا قبر نہ راحت سے ذرا گزرے گی کچھ بھی نہ جوانی نے کہا وقت وداع اتنا نہ بتا گئی کہ کیا گزرے گی