ہاں جملہ فنون زندگانی سیکھے
ہاں جملہ فنون زندگانی سیکھے گر کیسے کریں خون کو پانی سیکھے صحراؤں میں ہاں ناگ پھنی سے جا کر ہم نے یہ اصول سخت جانی سیکھے
ہاں جملہ فنون زندگانی سیکھے گر کیسے کریں خون کو پانی سیکھے صحراؤں میں ہاں ناگ پھنی سے جا کر ہم نے یہ اصول سخت جانی سیکھے
اس ہستیٔ منجلی سے ورثے میں ملا اللہ کے اس ولی سے ورثے میں ملا قرآن کی آیات کو لکھنے کا یہ شوق مجھ کو حضرت علی سے ورثے میں ملا
شہباز نبی چرخ پہ منڈلایا تھا اک پل کو نظر اس کا جو پر آیا تھا تو چاہ ابوجہل کا بوڑھا مینڈک کہتے ہیں بڑے زور سے ٹرایا تھا
تخلیق میں معتکف یہ ہونا میرا اب تک شب ہستی میں نہ سونا میرا خطاطی ادھر ہے تو ادھر نقاشی وہ اوڑھنا میرا یہ بچھونا میرا
سچائی پہ اک نگاہ کر لوں یارب اب درد کی حد ہے آہ کر لوں یارب رکھنے کو تری شان کریمی کی لاج معمولی سا اک گناہ کر لوں یارب
رحمت کی کڑی دھوپ میں لیٹوں مولیٰ رومال میں خرمن کو لپیٹوں مولیٰ اب اور مجھے بخش کے حیران نہ کر دے اتنا کہ جتنا میں سمیٹوں مولیٰ
پھولوں کی ملی بلخ سے تھالی مجھ کو بغداد میں زیتون کی ڈالی مجھ کو لاہور میں دی گئی ہے لیکن اے دوست خطاطی کے اعجاز پہ گالی مجھ کو
تحسین کے تحفے مجھے صائبؔ دیتا شاباش مجھے عرفیؔ یا طالبؔ دیتا خط کی مرے داد آج جو زندہ ہوتے یا شاہجہاںؔ دیتا یا غالبؔ دیتا
ان کی تو یہ عرفانی منازل میں سے ہے اور میرے بھی وجدانی مراحل میں سے ہے خطاطی میں کرتا ہوں کہ یہ بھی دوست اسلاف کے روحانی مشاغل میں سے ہے
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں خود گیر ہوں خود نگر ہوں خود گر میں ہوں