دلی سے وہ جا رہا تھا جس دم قندھار
دلی سے وہ جا رہا تھا جس دم قندھار لاہور کی مہ وشوں پہ سن تو اے یار میں نے ہی نہیں مجھ سے صدیوں پہلے تھے طالبؔ آملی نے لکھے اشعار
دلی سے وہ جا رہا تھا جس دم قندھار لاہور کی مہ وشوں پہ سن تو اے یار میں نے ہی نہیں مجھ سے صدیوں پہلے تھے طالبؔ آملی نے لکھے اشعار
تخلیق کے سقف و بام پاٹے جائیں یاقوت کے پس خوردہ کو چاٹے جائیں مخلوق خدا چوم رہی ہے مرے ہاتھ کاتب یہ مگر کہتے ہیں کاٹے جائیں
عاشق کے لئے رنج و الم رکھے ہیں شاہوں کے لئے تاج و علم رکھے ہیں ''میرے لیے کیا چیز ہے'' میں نے پوچھا آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں
گر اپنی ثنا عام نہیں دنیا میں پھر تو مجھے کچھ کام نہیں دنیا میں یکتائی کا دعویٰ فقط اس بات پہ ہے کوئی مرا ہم نام نہیں دنیا میں
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
شاگرد کسی کا ہوں نہ استاد ہوں میں کرتا ہوا تخلیق اور ایجاد ہوں میں لیلائے ہنر ہے اگر بنت لاہور پھر واقعی لاہور کا داماد ہوں میں
تو ہے کہ ایلورا کی کوئی مورتی ہے اتنی جو بدن کی تری خوبصورتی ہے اعضائے نمودار کی گولائی سے رہ رہ کے تری جنسی کشش گھورتی ہے
ساقی نے ہمیں ساغر جم بخشے ہیں ہاتھوں میں سیہ زلف کے خم بخشے ہیں مولیٰ نے حسینوں سے وفا کے بدلے دنیا میں ہمیں لوح و قلم بخشے ہیں
ہاں مفتئ شہر نے فتوے بھیجے اور مجھ کو حسینوں نے لفافے بھیجے نیلے کاغذ پہ اپنے کچے خط میں فن پر مرے لکھ لکھ کے قصیدے بھیجے
گیسو میں وہ سنبل کے چمن ہیں معلوم سینڈے میں وہ نکلتے جو سمن ہیں معلوم وہ جو ترے حمام میں آئینے ہیں ان کو ترے سب راز بدن ہیں معلوم