پھیلا کے تصور کے اثر کو میں نے
پھیلا کے تصور کے اثر کو میں نے مشہور کیا سعیٔ نظر کو میں نے ظاہر در و بام سے ہے نقش رخ دوست بت خانہ بنا رکھا ہے گھر کو میں نے
پھیلا کے تصور کے اثر کو میں نے مشہور کیا سعیٔ نظر کو میں نے ظاہر در و بام سے ہے نقش رخ دوست بت خانہ بنا رکھا ہے گھر کو میں نے
اخلاص کی دھوکے پر ہوں مائل تیرا سچ تو یہ ہے کہ جانتا ہے مشکل تیرا ریشم کی سی لچھی ہیں سب اعضا تیرے کیوں کر جانوں کہ سخت ہے دل تیرا
انداز و ادا سے کچھ اگر پہچانوں البتہ اسے خدا قائل جانوں کافر مغرور بے کینہ کش بے باک وہ اور خدا کو مانے کیوں کر مانوں
گر کہے حلول ہے وہ اک امر قبیح ایسا ہے کچھ اتحاد باطل ہے صریح جب ممکن واجب میں ہوئے عینیت کیوں کر نہ کہوں کہ ہے ہمہ و است صحیح
آ جائے اگر حکم فلک سے ناظمؔ اس حکم کو ہم سنیں ملک سے ناظمؔ ہے اس کو مخالفت مئے ناب کے ساتھ کھولیں گے نہ ہم روزہ نمک سے ناظمؔ
ہر چند لطف و مہربانی پیش آئے ہرگز کوئی اس شوخ کو ساقی نہ بنائے محفل میں شراب کس کو پہنچی جب جام رخنہ گریٔ مژہ سے چھلنی بن جائے
گو اس کی نہیں لطف و عنایت باقی ہے اس سے ہمیں ایک حکایت باقی رنجیدہ ہوا وہ بد گمانی سے تو ہو ہے شکوہ نہ کرنے کی شکایت باقی
اس بحر میں سیکڑوں ہی لنگر ٹوٹے بن بن کے حباب کاسۂ سر ٹوٹے گرداب فنا سے کوئی بچ کر نکلا شل ہو کے یہاں دست شناور ٹوٹے
آغاز ہے کچھ طرح نہ انجام ترا بندوں پہ ہمیشہ لطف ہے عام ترا مندر میں ہے ہر خدا ہے تو مسجد میں جپتے ہیں شیخ و برہمن نام ترا
اس باغ میں کس کا پھول چنتے دیکھا سر خاک پہ باغباں کو دھنتے دیکھا بلبل نے تڑپ کے جان دی اے صیاد نالہ نہ یہاں کسی کا سنتے دیکھا