میں نفس پرستی سے سدا خوار رہا
میں نفس پرستی سے سدا خوار رہا ظلمت کدۂ غم میں گرفتار رہا غفلت سے نہ دم بھر کو مری آنکھ کھلی بے ہوش رہا کبھی نہ ہشیار رہا
میں نفس پرستی سے سدا خوار رہا ظلمت کدۂ غم میں گرفتار رہا غفلت سے نہ دم بھر کو مری آنکھ کھلی بے ہوش رہا کبھی نہ ہشیار رہا
ہر سر میں یہ سودا ہے کہ میں ہی میں ہوں ہر دل میں سمایا ہے کہ میں ہی میں ہوں اس نفس نے سب کو کر دیا ہے گمراہ عرفاں یہ دکھاتا ہے کہ میں ہی میں ہوں
بے حس کے تغافل کا تو شکوہ بے سود پتھر سے پگھلنے کا تقاضا بے سود بیگانہ ہے جو رسم روا داری سے اس دل سے مروت کی تمنا بے سود
جھومی ہے ہر اک شاخ صبا رقصاں ہے مہر و مہ و انجم کی فضا رقصاں ہے دوشیزۂ فطرت کا ورود مسعود دیوانے کے ہونٹوں پہ دعا رقصاں ہے
اس شام وہ سر میں درد سہنا اس کا میں پاس ہوا تو دور رہنا اس کا مجھ سے ذرا شرما کے ''طبیعت میری کچھ آج ہے ناساز'' یہ کہنا اس کا
میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں جو زہر کہ واعظ نے ہے اگلا اس سے تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں
ہم سانپ پکڑ لیتے ہیں بینوں کے بغیر فصلیں بھی اگاتے ہیں زمینوں کے بغیر ہم اہل کرامات کا لیکن یارو دل ہی نہیں لگتا ہے حسینوں کے بغیر
ہر حرف میں مہ پاروں کے قد بنتے ہیں لوحوں پہ وہ اک حسن کی حد بنتے ہیں کاکل کے خیال ہی میں لکھا ہوں لام ابرو کے تصور میں ہی حد بنتے ہیں
اک بولتی صورت کا نمونہ کیا ہے چلتی ہوئی مورت کا نمونہ کیا ہے مرمر کی یہ محراب منارے گنبد تو فن عمارت کا نمونہ کیا ہے
ظاہر ہے رباعی میں مری دم کیا ہے ہوں بحر سے نابلد یہ عالم کیا ہے معلوم قسم خدا کی مجھ کو یہ نہیں اخرب کسے کہتے ہیں اخرم کیا ہے