آتا ہے جو منہ میں مجھے کہہ دیتی ہو
آتا ہے جو منہ میں مجھے کہہ دیتی ہو کیا تم سے کہوں سوائے اس کے سکھیو مجھ کو جو دکھایا خدا تم کو بھی دکھائے تم نے نہیں دیکھا ہے مرے یوسف کو
آتا ہے جو منہ میں مجھے کہہ دیتی ہو کیا تم سے کہوں سوائے اس کے سکھیو مجھ کو جو دکھایا خدا تم کو بھی دکھائے تم نے نہیں دیکھا ہے مرے یوسف کو
آنکھوں میں حیا اس کے جب آئی شب وصل پلکوں پہ پلک اس نے گرائی شب وصل عالم یہ سپردگی کا اس نے دیکھا ہر عضو میں آنکھ مسکرائی شب وصل
جب شام ڈھلی سنگار کر کے روئی ساجن کا انتظار کر کے روئی جب ڈوب چلے گگن میں تارے دم صبح اک اک گہنہ اتار کر کے روئی
بابل کے گھر سے جب آئی اٹھ کر ڈولی جاگی میں پیا کے سنگ اکٹھے سو لی دیکھو کایا بن گئی مری ان کی چھایا وہ اٹھ کر چلے تو میں ان کے پیچھے ہو لی
اے طینت عبث اب بدی سے باز آ اے حسن ارادت اپنا جلوہ دکھلا نیکی کا گزر نہ ہونے پایا دل میں انجام بخیر ہو جو حاصل ہو صفا
یارب مرے دل کو عطا صدق و صفا ہو نقش صداقت سے فنا وہم ریا صیقل سے صفا کی صاف آ جائے نظر آئنۂ پر ضیا میں جلوہ تیرا
خجلت سے مرا جاتا ہوں کیا زندہ ہوں اعمال سے اپنے سخت شرمندہ ہوں ساحر ہوں مرا حشر نہ جانے کیا ہو زشتی میں سیہ تاب سا تابندہ ہوں
لازم ملزوم ہو گئے ذات و صفات ہیں شخص و وجود عکس و سایہ کا ثبات توحید کا جلوہ ہیں حدوث اور قدم معدوم صفت ہے ذات قائم ہے بذات
عالم کا وجود ہے نمود بے بود ہے آب سراب اس کی ہستی کی نمود نیرنگ طلسم اس کو کہنا ہے بجا ہے وہم میں موجود یقیں میں مفقود
مردود خلائق ہوں گنہ گار ہوں میں پامال جہاں ہوں کہ سزاوار ہوں میں انجام جو خاک ہے اگر جیتے جی مل جاؤں نہ خاک میں تو بے کار ہوں میں