اس سے کہ کہیں کے شاہ ہو سکتے ہم
اس سے کہ کہیں کے شاہ ہو سکتے ہم یا اس سے کہ کج کلاہ ہو سکتے ہم بہتر تھا کہ خلق کی ہدایت کے لیے ہر راہ میں شاہراہ ہو سکتے ہم
اس سے کہ کہیں کے شاہ ہو سکتے ہم یا اس سے کہ کج کلاہ ہو سکتے ہم بہتر تھا کہ خلق کی ہدایت کے لیے ہر راہ میں شاہراہ ہو سکتے ہم
مرغوب ہو گر تم کو عمومی شاباش ہر طرح کرو دولت دنیا کی تلاش ہیں قوم میں مدعی ولایت کے بہت افسوس نہیں ولایتی عقل معاش
کوتاہ نہ عمر مے پرستی کیجے زلفوں سے تری دراز دستی کیجے ساقی نہ ہو جو شراب ہے آج وہ ابر پانی پی پی کے فاقہ مستی کیجے
گر یار کے سامنے میں رویا تو کیا مژگاں میں جو لخت دل پرویا تو کیا یہ دانۂ اشک سبز ہونا معلوم اس شور زمیں میں تخم بویا تو کیا
اے شیخ حرم تک تجھے آنا جانا یہ طوف جلاہے کاہے تانا بانا پہچانے گا واں کیا اسے حیراں ہوں میں جس کو حرم دل میں نہ تیں پہچانا
سوداؔ شعر میں ہے بڑائی تجھ کو تشریف سخن عرش سے آئی تجھ کو عالم تجھے اس فن میں پیمبر سمجھا پوجا جہلا نے بخدائی تجھ کو
دو دو مرے مہمان چلے آتے ہیں دونوں ہی دل و جان چلے آتے ہیں ساجن مرے آئے مرا دل لینے کو جاں لینے کو بھگوان چلے آتے ہیں
پوچھوں گی کوئی بات نہ منہ کھولوں گی ساجن ہیں بھروسے کے تو کیا بولوں گی لنکا کا محل ہو کہ خواب گاہ فرعون جس اور چلیں گے میں ادھر ہو لوں گی
ہر شام ہوئی سنگار کرنا بھی ہے پھر رات کا انتظار کرنا بھی ہے تن کی مرے چاندی ہو کہ من کا سونا ساجن پر سب نثار کرنا بھی ہے
میں اس کی پجارن وہ پجاری میرا میں اس کی بھکارن وہ بھکاری میرا اک پاؤں پہ کہہ دوں تو کھڑا ہو جائے مرلی کی طرح کرشن مراری میرا