دولت نہیں جب تک یہ زبوں رہتے ہیں
دولت نہیں جب تک یہ زبوں رہتے ہیں محراب دعا میں سرنگوں رہتے ہیں آ جاتی ہے جس وقت گھر ان کے دولت پھر کیا ہے یہ سرگرم جنوں رہتے ہیں
دولت نہیں جب تک یہ زبوں رہتے ہیں محراب دعا میں سرنگوں رہتے ہیں آ جاتی ہے جس وقت گھر ان کے دولت پھر کیا ہے یہ سرگرم جنوں رہتے ہیں
لازم نہیں اس دولت فانی پہ دماغ کر شکر جو حاصل ہے ترے دل کو فراغ مت تیغ زباں سے کر دلوں کو گھائل بھر جانے پہ زخم کے بھی رہ جاتا ہے داغ
غیرت میں سیاست میں شجاعت میں ہو مرد ہمت میں مروت میں عبادت میں ہو مرد لالچ سے شیخت سے تعلی سے ہو دور اتنا ہو کوئی تو قوم کا ہو ہمدرد
پاتا نہیں موت پر کوئی شخص ظفر ممکن ہی نہیں اس سے کسی طرح مفر ہر چند اس سفر میں سختی ہے بہت سہ لے کہ مصیبت سے تقاضائے سفر
دولت کے بھروسے پہ نہ ہونا غافل بہتر نہیں اوقات کا کھونا غافل واقع میں ہیں بیدار اسی شخص کے بخت جس شخص کو کر سکے نہ سونا غافل
یہ بات عجیب نگاہ میں آئی ہے ہر طرح سے جو خیال کو بھائی ہے یوں کوئی ہو لاکھ اپنے گھر میں یوسف بھائی ہے ادا جس کی وہی بھائی ہے
اخلاق کے عنصر ہوں اگر اصل مزاج جو قوم ہو کبھی نہ محتاج علاج ہو اس کو ہمیشہ خرق عادت کا ظہور حاصل ہو اسے عمر ابد کی معراج
ایرانی فصاحت اور حجازی غیرت یونانی بلاغت اور رومی حکمت ترکانہ جلالت اور چینی صنعت جس قوم میں عام ہو ہے قومی عزت
تعلیم کی میزان میں ہیں تلتے جاتے ہیں جوہر طبع روز کھلتے جاتے ہے عقل کی بزم عالموں روشن خود گرچہ ہیں مثل شمع گھلتے جاتے
جس علم سے اچھوں کی ہو خوبی ظاہر ہو اس سے رذیلوں کی برائی ظاہر ہے دخل عظیم علم میں طینت کو میووں میں ہے تاثیر زمیں کی ظاہر