ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا
ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا دم بھرتے ہیں ارباب بلاغت میرا میں شہر میں رہتا ہوں سند ہیں میرے شعر منہ چومتی ہے آب فصاحت میرا
ہادی ہوں میں کام ہے ہدایت میرا دم بھرتے ہیں ارباب بلاغت میرا میں شہر میں رہتا ہوں سند ہیں میرے شعر منہ چومتی ہے آب فصاحت میرا
بعض اہل وطن سے اب بھی دکھ پاتا ہوں تحصیل کمال کر کے پچھتاتا ہوں ایسوں کی صداؤں کا کچھ اتنا نہیں وزن کیا عرض کروں اس پہ دبا جاتا ہوں
اخلاق سے جہل علم و فن سے غافل مضموں جو دیکھیں تو مثل خط باطل اردو اخبار کے اڈیٹر اکثر لکھے نہ پڑھے نام محمد فاضل
ارباب قیود تجھ کو کیا دیکھیں گے خواہان نمود تجھ کو کیا دیکھیں گے رویت کے لئے شرط ہے میدان فنا پابند وجود تجھ کو کیا دیکھیں گے
شہروں میں پھرے نہ سوئے صحرا نکلے فیاض جو ہو وطن کے وہ کیا نکلے پیاسے آتے ہیں آپ دریا کی طرف پیاسوں کی تلاش کو نہ دریا نکلے
چالاک ہیں سب کے سب بڑھتے جاتے ہیں افلاک ترقی پہ چڑھتے جاتے ہیں مکتب بدلا کتاب بدلی لیکن ہم ایک وہی سبق پڑھتے جاتے ہیں
جو چاہئے دیکھنا نہ دیکھا میں نے ہر شے پہ کیا ہے غور کیا کیا میں نے اوروں کا سمجھنا تو بہت مشکل ہے خود کیا ہوں اسی کو نہیں سمجھا میں نے
کہتے ہو کہ کر لیں گے ہم اس کام کو کل ایسا نہ ہو کہ کل بھی ہاتھ سے جائے نکل جس کل سے بنے آج ہی فرصت کر لو کل چاہے چلے یا نہ چلے کام کی کل
تن عیش کا گھر ہے اس کا اسباب ہے روح مینا ہے یہ اور بادۂ ناب ہے روح یا چنگ معنئ ازل میں شہبازؔ یہ تن ہے رباب اس کی مضراب ہے روح
ہے جس کی سرشت میں سفاہت کا میل لے جائے بہا کے گرچہ تعلیم کا سیل اور کھائے پڑا گرچہ برسوں غوطے نکلے گا تو ہوگا پھر وہی بیل کا بیل