دل مورد ایذا و بلا ہوتا ہے
دل مورد ایزا و بلا ہوتا ہے پاداش عمل میں سب بجا ہوتا ہے جو قرض کہ خوش ہو کے لیا تھا میں نے وہ سود سمیت اب ادا ہوتا ہے
دل مورد ایزا و بلا ہوتا ہے پاداش عمل میں سب بجا ہوتا ہے جو قرض کہ خوش ہو کے لیا تھا میں نے وہ سود سمیت اب ادا ہوتا ہے
ہر حال میں آبروئے فن لازم ہے تقلید فصیحان وطن لازم ہے دریوزہ گری ہے عیب سن لیں احباب آپ اپنی زبان میں سخن لازم ہے
بدلے نہ صداقت کا نشاں ایک رہے ہر حال میں پنہاں و نہاں ایک رہے انساں ہے وہی جو اس دور دو رنگی سے بچے لازم ہے کہ دل اور زباں ایک رہے
کیوں بات چھپاؤں رند مے نوش ہوں میں دنیا کہتی کہ دین فراموش ہوں میں حسرت سے گروں تو پائے ساقی پہ گروں جب خوب شراب پی کے مدہوش ہوں میں
مضموں میرے دل میں بے طلب آتے ہیں قدسی طبق نور میں دبے جاتے ہیں کچھ اور نہیں علم مجھے اس کے سوا کہتا ہوں وہی جو مجھ سے کہلواتے ہیں
حقا کہ وہ جادۂ وفا سے بھی پھرا احباب و عزیز و اقربا سے بھی پھرا اے مدرسۃ العلوم جو تجھ سے پھرا سچ پوچھو تو خانۂ خدا سے بھی پھرا
کیا مفت زاہدوں نے الزام لیا تسبیح کے دانوں سے عبث کام لیا یہ نام وہ تھا جس کو بے گنتی لیتے کیا لطف جو گن گن کے ترا نام لیا
اس سلسلۂ شہود کو توڑ دیا گھبرا کے عدم کی سمت منہ موڑ دیا کب تک ان سختیوں کو جھیلا کرتی اکتا کے مری روح نے جی چھوڑ دیا
جس وقت کا ڈر تھا وہ شباب آ پہنچا ہنگام رحیل و پا تراب آ پہنچا جاگو جاگو حشر تک سونا ہے چونکو چونکو کہ وقت خواب آ پہنچا
کیوں کر نہ رہے غم نہانی تیرا دنیا میں بتا کون ہے ثانی تیرا ہم لے کے عصا دور تلک ڈھونڈ آئے کوسوں نہیں نام اے جوانی تیرا