للکار
آزادئ عالم کے پرستار ہیں ہم احرار جنہیں کہئے وہ احرار ہیں ہم ناپاک لٹیرو یہ تمہیں یاد رہے جاں باز ہیں بے باک ہیں جرار ہیں ہم
آزادئ عالم کے پرستار ہیں ہم احرار جنہیں کہئے وہ احرار ہیں ہم ناپاک لٹیرو یہ تمہیں یاد رہے جاں باز ہیں بے باک ہیں جرار ہیں ہم
اس دور بلندی میں بڑی پستی ہے سر مستی ہے بد مستی ہے خر مستی ہے روٹی تو بہت مہنگی ہے یکسر مہنگی مے سستی بہت سستی بہت سستی ہے
ہم امن میں رکھتے ہیں یقین کامل ہے امن جہانگیر ہماری منزل لیکن کوئی غاصب جو بڑھے سرحد پر شیداؔ اسے کر دیں گے جہنم واصل
جس دل میں غبار ہو وہ دل صاف کہاں پھر خلق کہاں وقار الطاف کہاں جس قوم میں آ گیا تعصب کا قدم اس قوم میں اے شادؔ پھر انصاف کہاں
ساقی کے کرم سے فیض یہ جاری ہے یا پیر خر کی غم خواری ہے صف توڑ کے بٹ رہی ہے رندوں میں شراب معلوم نہیں کہ مری کب باری ہے
ہر طرح کی دل میں چاہ کر کے چھوڑے مشغول فغاں و آہ کر کے چھوڑے یارب کبھی اس کا گھر نہ کرنا آباد جو غیر کا گھر تباہ کر کے چھوڑے
تنہا ہے چراغ دور پروانے ہیں اپنے تھے جو کل آج وہ بیگانے ہیں بیرنگئی دنیا کا نہ پوچھو احوال قصے ہیں کہانیاں ہیں افسانے ہیں
روشن ہے کہ شاد سخن آرا میں ہوں سمجھو نہ مجھے غیر تمہارا میں ہوں مغرب میں شعاع بڑھ کے پہنچے گی ضرور مشرق کا چمکتا ہوا تارا میں ہوں
تعریف بتاؤں شعر کی کیا کیا ہے نغموں کی صداقت اس سے خود پیدا ہے اصلیت حال جس سے مخفی رہ جائے ہشیار کہ وہ شعر نہیں دھوکا ہے
سو طرح کا میرے لیے سامان کیا پورا اک عمر کا ارمان کیا سید سے ملا پہ مدرسہ بھی دیکھا حالیؔ نے عجب طرح کا احسان کیا