یادوں کی میں بارات لیے آیا ہوں
یادوں کی میں بارات لیے آیا ہوں اور اشکوں کی سوغات لیے آیا ہوں دنیا کے مسائل سے گزر کر تم تک امید ملاقات لیے آیا ہوں
یادوں کی میں بارات لیے آیا ہوں اور اشکوں کی سوغات لیے آیا ہوں دنیا کے مسائل سے گزر کر تم تک امید ملاقات لیے آیا ہوں
مٹی ہیں ہوں گے زمین کا پیوند پھیلے ہوئے چار سمت اصلاً پابند ہم جڑ سے اکھاڑے ہوئے اشجار کے برگ گلشن نہ ذمہ دار خودداریاں چہ کنند
ریشہ ریشہ بکھر گیا میں نہ کہ تو اپنی تہہ میں اتر گیا میں نہ کہ تو اے سر چکراتی وسعت کے مالک تھکتے تھکتے ٹھہر گیا میں نہ کہ تو Who broke into bits vein by vein, you or I? Who was lost in his own depths, you or I? You, the master of mind-reeling vastness: Who halted, slowly worn out, you or I?
جنگل سے گھنے خواب حقیقت رم شب بوجھل بکھرے خواب حقیقت رم شب بستر کی ہر شکن پسینے سے تر یا حبس بھرے خواب حقیقت رم شب
تاریک رگیں لہو سے روشن کر دے شادابیٔ زر کو زیب دامن کر دے اے شمع فروزاں پس لوح سحری بادل آنکھوں کو برق مسکن کر دے
ہر آگ کو نذر خس و خاشاک کروں ہر سیل کو برباد سر خاک کروں اے شیشۂ آہنگ میں معنی کی شراب کہہ دے تجھے کس درجہ میں بے باک کروں
کس خوف کا داغ ماہ وا دید میں ہے کیا آنکھ ہے جو محاذ خورشید میں ہے کیسی ہے نسیم وہم اڑے ہیں چہرے کس سانپ کی آمد شب تجدید میں ہے
رفتار و صدا گنبد افلاک میں آئے کچھ رنگ حیا دیدۂ چالاک میں آئے ہر چیز مقید ہے کسی کے دل میں دل ٹوٹے تو جاں نقش کف خاک میں آئے
دل بھی دامن ہے پھیلاؤ سر شب موتی سی بارش برساؤ سر شب جب جوش سیل سے منور ہو دماغ ان کڑوی بوندوں میں نہاؤ سر شب
اک آتش سیال بھر دے مجھ کو اک جشن خیالی کی خبر دے مجھ کو اے موج فلک میں سر اٹھانے والے کٹ جائے تو روشن ہو وہ سر دے مجھ کو Let molten fire fill my being Give me the glad tidings of a feast of the mind. You, who raise your head into the wavy skies: Give me the head that glows when it is slashed away