ٹھوکر مجھے در در کی کھلا کے چھوڑا
ٹھوکر مجھے در در کی کھلا کے چھوڑا تقدیر نے یوں ہوش اڑا کے چھوڑا یہ قصر دل و جاں تھا حسیں لیکن اسے اک روز اجل نے بھی مٹا کے چھوڑا
ٹھوکر مجھے در در کی کھلا کے چھوڑا تقدیر نے یوں ہوش اڑا کے چھوڑا یہ قصر دل و جاں تھا حسیں لیکن اسے اک روز اجل نے بھی مٹا کے چھوڑا
حسن بت مر مر ہے کہ تن چاندی کا یہ خواب ہے یا اصل بدن چاندی کا بیٹھا ہی تھا دم بھر ترے پہلو میں سراجؔ پہنا دیا موت نے کفن چاندی کا
اشعار میں ہنگامۂ کل باندھ دیا ہم نے صف انجم رگ گل باندھ دیا جب تک جئے دنیا تو برا کہتی تھی موت آئی تو تعریف کا پل باندھ دیا
یہ کون بغل گیر ہوا خوشبو کی طرح آنکھوں کے گہر جاگ اٹھے جگنو کی طرح احساس کی اس بارہ دری پر اب تک اک چاند سلگ رہا ہے آنسو کی طرح
اڑتا ہوا بادل کہیں ہاتھ آیا ہے چھوٹا ہوا آنچل کہیں ہاتھ آیہ ہے بکھری ہوئی خوش بو کبھی سمٹی ہے کہیں گزرا ہوا اک پل کہیں ہاتھ آیا ہے
آئینے کو خود توڑ رہا ہو جیسے احساس کا رخ موڑ رہا ہو جیسے دنیا کے مسائل سے گزرنے والا یادوں کی ڈگر چھوڑ رہا ہو جیسے
احساس کی لذت کے قریب آ جاؤ انفاس کی نگہت کے قریب آ جاؤ فطرت کے تقاضوں سے تغافل کب تک آ جاؤ محبت کے قریب آ جاؤ
خوابوں کے طلسمات سے ہم گزرے ہیں اس دور کے حالات سے ہم گزرے ہیں سیلاب کا مرکز تھا جب اپنا آنگن اس رات کی برسات سے ہم گزرے ہیں
دل پر اثر خواب ہے ہلکا ہلکا جیسے کوئی پیمانہ ہو چھلکا چھلکا آنکھوں کے لیے مرکز رعنائی ہے آنچل ترے شانوں پہ یہ ڈھلکا ڈھلکا
جرأت ہو تو دنیا سے بغاوت کر لو احساس کو بے گانۂ نفرت کر لو کیوں حرص کے مرگھٹ پہ سسکتے ہو بھلا انسان ہو اپنے سے محبت کر لو