برسات کی چھا گئیں گھٹائیں ساقی
برسات کی چھا گئیں گھٹائیں ساقی مے خانہ بہ دوش ہیں ہوائیں ساقی ہر ذرہ سرور کی بنا ہے تصویر آ ہم بھی ذرا پئیں پلائیں ساقی
برسات کی چھا گئیں گھٹائیں ساقی مے خانہ بہ دوش ہیں ہوائیں ساقی ہر ذرہ سرور کی بنا ہے تصویر آ ہم بھی ذرا پئیں پلائیں ساقی
یوں کون سی چیز ہے جو دنیا میں نہیں آنسو ساگر جہان پیدا میں نہیں اس قطرے میں کائنات غم ہے پنہاں اس قطرے کی وسعتیں تو دریا میں نہیں
آنکھوں میں خمار شوق افزا لے کر جذبات کی اک خموش دنیا لے کر آ جائے کوئی پیوں پلاؤں جھوموں بیٹھا ہوں سبو و جام و صہبا لے کر
آساں نہیں حال دل عیاں ہو جانا خاموشی سے تم نہ بد گماں ہو جانا خودداریٔ عشق نے سکھایا مجھ کو دل دے کے کسی کو بے زباں ہو جانا
بے ہمت کھلتے نہیں عقدے پر پیچ اے جوش جنوں سنبھل ہیں رشتے پر پیچ اس بھول بھلیاں سے نہ گھبرا اے دل ہوتے ہیں بلندیوں کے رستے پر پیچ
کب خاک کا مقصود تھا حیراں ہونا فن کف آذر سے پریشاں ہونا تخلیق کا آخر یہ مقدر ٹھہرا مخلوق کا ہنس کھیل کے ویراں ہونا
سنبھلے نہ سنبھالے نوجوانی کی دھوپ پیری میں نکھارے سے نکھرتا نہیں روپ کر عہد جوانی کو ضعیفی میں نہ یاد اللہ کی قدرت کبھی چھاؤں کبھی دھوپ
عقبیٰ کی خلش سینۂ دنیا کی خراش آئینۂ شاعر میں ہر اک راز ہے فاش وہ ذہن دو عالم سے اتر جاتا ہے جو شخص نہیں پیکر احساس تراش
افسانۂ ظلم اپنا مکمل کر دو گلزار محبت کو جنگل کر دو غم باندھ لیا دل سے تمہاری خاطر اب چہرہ دکھا کر مجھے پاگل کر دو
یہ رزم گہہ فن یہ بلاغت کا محاذ گفتار سنبھل کہ ہے فصاحت کا محاذ آسان سمجھئے نہ رباعی کہنا مقتل گہہ شاعر ہے شہادت کا محاذ