سلسلے اونچے خیالات سے جوڑے ہم نے
سلسلے اونچے خیالات سے جوڑے ہم نے جانور لاغر و کمزور نہ چھوڑے ہم نے مدرسے کے لئے پیسہ تھا کمانا یوں ہی بھینس تو بھینس ہے کٹوا دیئے گھوڑے ہم
سلسلے اونچے خیالات سے جوڑے ہم نے جانور لاغر و کمزور نہ چھوڑے ہم نے مدرسے کے لئے پیسہ تھا کمانا یوں ہی بھینس تو بھینس ہے کٹوا دیئے گھوڑے ہم
عاشقوں کی تو ہے بھر مار ترے کوچے میں روز ہے گرمئ بازار ترے کوچے میں آ ذرا دیکھ تو نیچے تو اتر کر ظالم جمع ہیں تیرے خریدار ترے کوچے میں
مشاعروں میں ہوا ہوٹ جو مسلسل میں تو ایک شخص یہ بولا تو مسخرا بن جا اگر تو لوٹنا چاہے مشاعرے آثمؔ تو چھوڑ چھاڑ کے سب کچھ تو شاعرہ بن جا
یہ کہتے ہیں سبھی اس دور میں ہر کام ممکن ہے میں یہ کہتا ہوں یہ لیکن دوبارہ ہو نہیں سکتا ہرا ہو سکتا ہے سوکھا ہوا اک پیڑ ممکن ہے مگر شادی شدہ ہرگز کنوارا ہو نہیں سکتا
ریٹ اتنے بڑھے ہیں جوتوں کے کیسے جوتے خرید کر لاؤں اب تو جوتوں کے واسطے آثمؔ سوچتا ہوں نماز پڑھ آؤں
ہے وٹامن کی کمی عاشق میں تیرے اس قدر اس کو کچھ دکھتا نہیں تیرے نظر آنے کے بعد کھاتا ہے دو کیپسول اور وہ بھی اس ترتیب سے ''اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد''
ایک لیڈر نے یہ کہا مجھ سے آج ہم پی کے بے حساب آئے اک دفعہ بیٹھنے دو کرسی پہ ''اس کے بعد آئے تو عذاب آئے''
آتنک کا ماحول ہے چھایا ہوا دل پر خوف اتنا ہے بازار اکیلی نہیں جاتی بندوق سے محبوبہ ہے سہمی ہوئی اتنی بیمار بھی ہوتی ہے تو گولی نہیں کھاتی
اب کہاں ہے وہ نشتروں کی بہار طنز رخصت ہوا فگارؔ کے ساتھ کچھ بھی باقی نہیں ہے محفل میں شیروانی گئی خمارؔ کے ساتھ
ہکلا گیا جو شادی میں دولہا تو کیا ہوا زیادہ خوشی میں سانس اٹکتی ضرور ہے خوش ہو رہا تھا دولہا تو قاضی نے یوں کہا ''بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے''