پہنچا سیاہ فام اک اعلیٰ مقام پر
پہنچا سیاہ فام اک اعلیٰ مقام پر دن ہو رہا ہے جھوم کے قربان شام پر گوروں نے شاعروں کو سنانے کے واسطے کالی غزل کہی ہے اوباماؔ کے نام پر
پہنچا سیاہ فام اک اعلیٰ مقام پر دن ہو رہا ہے جھوم کے قربان شام پر گوروں نے شاعروں کو سنانے کے واسطے کالی غزل کہی ہے اوباماؔ کے نام پر
داستان عشق میں نے جب کہی سسرال میں میرے سالے گالیاں بے انتہا دینے لگے ساس نے ڈنڈا اٹھایا اور سسر نے چپلیں ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''
میں نے کہا گدھے سے میاں کچھ پڑھو لکھو بولا جناب ہو گئی بے عزتی تو پھر بے عزتی بھی ٹھیک ہے لیکن جناب من پڑھ لکھ کے بن گیا میں اگر آدمی تو پھر
قاتل تو قتل کر کے کبھی کا نکل گیا کرتی رہے اب اس کی پولیس عمر بھر تلاش آیا بیاں یہ جانچ کے بعد اب پولیس کا بکسے میں جا کے لیٹ گئی اپنے آپ لاش
ہاتھ میں پاپڑ لئے بیٹھا تھا میں دفعتاً اک مہ جبیں یاد آ گئی میں اسی کی یاد میں کھویا رہا اور بکری سارا پاپڑ کھا گئی
یہ منظر دیکھ کر بیوی نے کاٹا اپنے شوہر کو عجب وحشت سی برپا ہو گئی پردے پہ ٹی وی کے ہوئی طاری کچھ اتنی ہم پہ گھبراہٹ کہ پھر ہم نے نکلوا ڈالے ہیں سب احتیاطاً دانت بیوی کے
موت سے ملنے گلے دیکھ تو عاشق تیرے بن سنور کر ہوئے تیار ترے کوچے میں دیکھ کر موت کا منظر یہ عجب ہم آثمؔ بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں
چاند پر پہنچا کوئی جھانکا کوئی مریخ میں سیر کر آیا ہے کوئی چین کی دیوار پر ہم تو کاہل ہیں مگر اس دوڑ میں پیچھے نہیں لفٹ ہو تو ہم بھی چڑھ جائیں قطب مینار پر
جب ہٹائی اس نے چہرے سے نقاب آرزوؤں کے گھروندے ڈھ گئے میں تو چالیس کا ہوں اور پچپن کی وہ ''دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے''
اگر مل گئی حور جنت میں مجھ کو تو نخرہ بھی اس کا اٹھانا پڑے گا یہاں موت دیتی ہے انساں کو چھٹی وہاں جانے کب تک نبھانا پڑے گا