جا رہا تھا حرم کو میں لیکن
جا رہا تھا حرم کو میں لیکن راستے میں بہ خوبیٔ تقدیر اک مقام ایسا آ گیا جس نے ڈال دی میرے پاؤں میں زنجیر
جا رہا تھا حرم کو میں لیکن راستے میں بہ خوبیٔ تقدیر اک مقام ایسا آ گیا جس نے ڈال دی میرے پاؤں میں زنجیر
زندگی کی دراز پلکوں پر راستے کا غبار چھایا ہے آب کوثر سے آنکھ کو دھو لے میکدہ پھر قریب آیا ہے
شام ہے اور پار ندی کے ایک ننھا سا بے قرار دیا یوں اندھیرے میں ٹمٹماتا ہے جیسے کشتی کے ڈوبنے کی صدا
ذوق پرواز اگر رہے غالب حلقۂ دام ٹوٹ جاتا ہے زندگی کی گرفت میں آ کر موت کا جام ٹوٹ جاتا ہے
تیرگی کے گھنے حجابوں میں دور کے چاند جھلملاتے ہیں زندگی کی اداس راتوں میں بے وفا دوست یاد آتے ہیں
اے مرا جام توڑنے والے میں تجھے بد دعا نہیں دیتا میں بھی ہوں ایک سنگ دل تاجر جو ہنر کا صلہ نہیں دیتا
اے خرابات کے خداوندو دست الطاف کو کھلا رکھو جو محبت سے چل کے آ جائے اس کی امید کو ہرا رکھو
زیست دامن چھڑائے جاتی ہے موت آنکھیں چرائے جاتی ہے تھک کے بیٹھا ہوں اک دوراہے پر دوپہر سر پہ آئے جاتی ہے
عروس صبح نے لی ہے مچل کے انگڑائی صبا کی نرمئ رفتار ہے سرور انگیز یہ وقت ہے کہ عبادت کا اہتمام کریں خلوص دل سے اچھال ایک ساغر لبریز
اور ارمان اک نکل جاتا اک کلی ہنس کے اور کھل جاتی کاش اس تنگ دل زمانے سے اک حسیں شام اور مل جاتی