کہا بیٹے نے اک تصویر اپنی ماں کو دکھلا کر
کہا بیٹے نے اک تصویر اپنی ماں کو دکھلا کر یہ کس نے نام میرے باپ کا فوٹو پہ لکھا ہے وہ بولی یہ تمہارے باپ ہیں بیٹے نے پوچھا پھر تمہارے ساتھ کمرے میں وہ گنجا کون رہتا ہے
کہا بیٹے نے اک تصویر اپنی ماں کو دکھلا کر یہ کس نے نام میرے باپ کا فوٹو پہ لکھا ہے وہ بولی یہ تمہارے باپ ہیں بیٹے نے پوچھا پھر تمہارے ساتھ کمرے میں وہ گنجا کون رہتا ہے
میں نے پوچھا یہ ایک شاعر سے پیر کو بھی مرید کہتے ہو چاند تاروں کو کہتے ہو کتا شعر اتنے جدید کہتے ہو
ادب میں آ گئے خم ٹھونک شاعر غزل کیا مہربانی کر رہی ہے حسینوں کا جو لکھتی تھی قصیدہ وہ لڑکی پہلوانی کر رہی ہے
بولا دکان دار کہ کیا چاہئے تمہیں جو بھی کہو گے میری دکاں پر وہ پاؤ گے میں نے کہا کہ کتے کے کھانے کا کیک ہے بولا یہیں پہ کھاؤ گے یا لے کے جاؤ گے
رفتہ رفتہ ہر پولیس والے کو شاعر کر دیا محفل شعر و سخن میں بھیج کے سرکار نے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا رات بھر غزلیں سنائیں اس کو تھانے دار نے
یہ بھی سچ ہے کہ مجھے دل سے بھلایا ہوگا یہ بھی سچ ہے کہ کبھی چین نہ پایا ہوگا یہ بھی سچ ہے در و دیوار پہ اپنے گھر کے لکھ کے سو بار مرا نام مٹایا ہوگا
یہ بولا دلی کے کتے سے گاؤں کا کتا کہاں سے سیکھی ادا تو نے دم دبانے کی وہ بولا دم کے دبانے کو بزدلی نہ سمجھ جگہ کہاں ہے یہاں دم تلک ہلانے کی
بے قراری میں بھی اکثر درد مندان جنوں اے فریب آرزو تیرے سہارے سو گئے جن کے دم سے بزم ساغرؔ تھی حریف کہکشاں اے شب ہجراں کہاں وہ ماہ پارے سو گئے
ایک شبنم کے قطرے کی تقدیر کو آزماتی رہی رات بھر چاندنی صبح دیکھا شگوفے تھے ٹوٹے ہوئے گل کھلاتی رہی رات بھر چاندنی
زندگی اور شراب کی لذت اک نرالا سرور دیتی ہے ایک کرتی ہے کاروبار خدا ایک ترغیب حور دیتی ہے