گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں
گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں بادہ خانوں میں جھوم لیتا ہوں زندگی جس جگہ بھی مل جائے اس کے قدموں کو چوم لیتا ہوں
گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں بادہ خانوں میں جھوم لیتا ہوں زندگی جس جگہ بھی مل جائے اس کے قدموں کو چوم لیتا ہوں
سو رہی ہے گلوں کے بستر پر ایک تصویر رنگ و نکہت و ناز جس کے ماتھے کی نرم لہروں پر چاندنی رات پڑھ رہی ہے نماز
وصل کی شب ہے اور سینے میں ایک مدہوش آگ کا رس ہے آج سارے چراغ گل کر دو آج اندھیرا بڑا مقدس ہے
نہ خدا ہے نہ ناخدا ساتھی ناؤ کو آپ ہی چلانا ہے یا بغاوت سے پار اترنا ہے یا رعونت سے ڈوب جانا ہے
ساحل پہ اک تھکے ہوئے جوگی کی بنسری تلقین کر رہی ہے کنارہ ہے زندگی طوفان میں سفینۂ ہستی کو چھوڑ کر ملاح گا رہا ہے کہ دریا ہے زندگی
ناخدا کس لئے پریشاں ہے کشمکش عین کامیابی ہے گر کنارہ نہیں مقدر میں قصر دریا میں کیا خرابی ہے
زندگی اک فریب پیہم ہے مسکرا کر فریب کھاتا جا روشنی قرض لے کے ساقی سے سرد راتوں کو جگمگاتا جا
اے گداگر خدا کا نام نہ لے اس سے انساں کا دل نہیں ہلتا یہ ہے وہ نام جس کی برکت سے اکثر اوقات کچھ نہیں ملتا
مفلسوں کو امیر کہتے ہیں آب سادہ کو شیر کہتے ہیں اے خدا! تیرے باخرد بندے بزدلی کو ضمیر کہتے ہیں
ظلمتوں کو شراب خانے سے دھن کی خیرات ہوتی جاتی ہے ساغروں کے بلند ہونے سے چاندنی رات ہوتی جاتی ہے