صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر اس وقت غور سے مرے چہرے کا حال دیکھ
صورت کے آئنے میں دل پائمال دیکھ الفت کی واردات کا حسن مثال دیکھ جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر اس وقت غور سے مرے چہرے کا حال دیکھ
اب بھی سازوں کے تار ہلتے ہیں اب بھی شاخوں پہ پھول کھلتے ہیں تم نے ہم کو بھلا دیا تو کیا اب بھی راہوں میں چاند ملتے ہیں
بحر آلام بے کنارہ ہے زیست کی ناؤ بے سہارا ہے رات اندھیری ہے اور متاع امید ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہے
جن کو ملاح چھوڑ جاتے ہیں ان سفینوں کو کون کھیتا ہے پوچھتی ہے یہ قسمت مزدور یا خدا رزق کون دیتا ہے
اک شکستہ سے مقبرے کے قریب اک حسیں جوئبار بہتی ہے موت کتنی مداخلت بھی کرے زندگی بے قرار رہتی ہے
ایک ریزہ ترے تبسم کا اڑ گیا تھا شراب خانے سے حوض کوثر بنا دیا جس کو واعظوں نے کسی بہانے سے
مایوس ہو گئی ہے دعا بھی جبین بھی اٹھنے لگا ہے دل سے خدا کا یقین بھی تسکیں کی ایک سانس ہمیں بخش دیجئے یہ آسماں بھی آپ کا اور یہ زمین بھی
یہ وہ فضا ہے جہاں فرق صبح و شام نہیں کہ گردشوں میں یہاں زندگی کا جام نہیں دیار پاک میں مت پڑھ کلام روح افزا کہ مقبروں میں خطیبوں کا کوئی کام نہیں
زندگی ہے کہ اک حسین سزا زیست اپنی ہے غم پرائے ہیں ہم بھی کن مفلسوں کی دنیا میں قرض کی سانس لینے آئے ہیں
دفن ہیں ساغروں میں ہنگامے کتنی اجڑی ہوئی بہاروں کے نام کندہ ہیں آبگینوں پر کتنے ڈوبے ہوئے ستاروں کے