میں راستے کا بوجھ ہوں میرا نہ کر خیال
میں راستے کا بوجھ ہوں میرا نہ کر خیال تو زندگی کی لہر ہے لہریں اٹھا کے چل لازم ہے میکدے کی شریعت کا احترام اے دور روزگار ذرا لڑکھڑا کے چل
میں راستے کا بوجھ ہوں میرا نہ کر خیال تو زندگی کی لہر ہے لہریں اٹھا کے چل لازم ہے میکدے کی شریعت کا احترام اے دور روزگار ذرا لڑکھڑا کے چل
خوئے لیل و نہار دیکھی ہے تلخیوں کی بہار دیکھی ہے زندگی کے ذرا سے ساغر میں گردش روزگار دیکھی ہے
مرمریں مرقدوں پہ وقت سحر مے کشی کی بساط گرم کریں موت کے سنگ دل غلافوں کو ساغروں کی کھنک سے نرم کریں
کتنی صدیوں سے عظمت آدم عجز فطرت پہ مسکراتی ہے جب مشیت کی کوئی پیش نہ جائے موت کا فیصلہ سناتی ہے
جام اٹھا اور فضا کو رقصاں کر خودبخود کوئی رت نہیں پھرتی وقت کی تنگ دل صراحی سے مے کی اک بوند بھی نہیں گرتی
روح کو ایک آہ کا حق ہے آنکھ کو اک نگاہ کا حق ہے ایک دل میں بھی لے کے آیا ہوں مجھ کو بھی اک گناہ کا حق ہے
اب مری حالت غم ناک پہ کڑھنا کیسا کیا ہوا مجھ کو اگر آپ نے ناشاد کیا حادثہ ہے مگر ایسا تو المناک نہیں یعنی اک دوست نے اک دوست کو برباد کیا
خرابات منزل گہ کہکشاں ہے وگرنہ ہر اک چیز ظلمت نشاں ہے لب ماہ و انجم پہ ساقی ازل سے ترا ذکر ہے یا مری داستاں ہے
دل کی ہستی بکھر گئی ہوتی روح کے زخم بھر گئے ہوتے زندگی آپ کی نوازش ہے ورنہ ہم لوگ مر گئے ہوتے
چلتے چلتے تمام رستوں سے مست و مسرور آ گئے ہیں ہم اب جبیں سے نقاب الٹ دیجے شہر سے دور آ گئے ہیں ہم