گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے
گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے کسی طرح یہ شجر مجھ پہ مہرباں ہو جائے اسی لئے تو اداسی سے گفتگو نہیں کی کہیں وہ بات نہ باتوں کے درمیاں ہو جائے
گلے لگائے مجھے میرا راز داں ہو جائے کسی طرح یہ شجر مجھ پہ مہرباں ہو جائے اسی لئے تو اداسی سے گفتگو نہیں کی کہیں وہ بات نہ باتوں کے درمیاں ہو جائے
اب منانا اسے مشکل ہے کہ یہ آخری پل روٹھنے کے لیے تیار ہوا بیٹھا ہے میرے باہر ترے آنے کی خوشی ہو کہ نہ ہو میرے اندر کوئی سرشار ہوا بیٹھا ہے
روز اک باغ گزرتا ہے اسی رستے سے روز کشکول میں اک پھول دھرا ہوتا ہے زخم اور پیڑ نے اک ساتھ دعا مانگی ہے دیکھیے پہلے یہاں کون ہرا ہوتا ہے
میں اس کہانی میں ترمیم کر کے لایا ہوں جو تم کو پہلے سنائی تھی مسترد سمجھو مجھے خدا سے نہیں ہے کوئی گلہ لیکن تم آدمی ہو تو پھر آدمی کی حد سمجھو
زمیں کے غرب سے سورج طلوع کرتا ہوں اور اختتام کا قصہ شروع کرتا ہوں مری گلی مری وحشت سمجھ نہیں پائی سو اب تمہاری گلی سے رجوع کرتا ہوں
اے خدا ایک بار مل مجھ سے یہ تعارف تو غائبانہ ہے میں غلط وقت پر ہوا بیدار یہ کسی اور کا زمانہ ہے
نہیں پستیوں میں بلندیوں سے میں اپنے آپ ہی آ گیا مرا دل جہاں پہ تھا مطمئن وہ وہاں سے مجھ کو گرا گیا یہ دلاسہ ہے کہ مذاق سا مجھے دل ہی دل میں ہنسا گیا مری آنکھ اشک سے تر تھی جب مجھے آئنہ وہ دکھا گیا
تری بد گمانیوں کا ہے عجیب سا تسلسل تجھے اب بھی یوں لگے ہے کہ میں زار زار رویا مرے دل کی رہ گزر پہ ہیں انا کے سرخ شعلے تری ذات بھی انہی میں ہی جھلس گئی ہے گویا ہے نشان تیرا باقی نہیں روح پہ ذرا بھی ابھی جسم کا کوئی بھی نہیں داغ میں نے دھویا
مرے دل کی اداس وادی میں غنچہ ہائے ملول کھلتے ہیں گلستانوں پہ ہی نہیں موقوف جنگلوں میں بھی پھول کھلتے ہیں
ماہ و انجم کے سرد ہونٹوں پر ہم نشیں تذکرہ ہے صدیوں کا جام اٹھا اور دل کو زندہ رکھ آسماں مقبرہ ہے صدیوں کا